Light
Dark

لاوارث شہر کو جدید بنانے سے محروم کرنے کا ایجنڈا

لاوارث شہر کو جدید بنانے سے محروم کرنے کا ایجنڈا،ٹرانسپورٹ پر بیک وقت 19 ادارے کام کررہے ہیں
بس ٹرمینل کی اراضی پر قبضہ، کچی آبادی گوٹھ آباد، قبرستان ہستپال تعمیر ہوچکا ہے۔میئر کراچی نے ٹرمینل کی زمین نجکاری کا اعلان کیا
کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی میں سرکاری بس ٹرمینل پر اربوں روپے مالیت کی زمین پر قبضہ،کچی آبادی اور گوٹھ آباد ہوچکے ہیں جس پر نہ مقدمہ، نہ کوئی ایف آر درج ہوئی اور نہ کسی کی گرفتاری عمل میں آئی جبکہ بچ جانے والی اراضی لینڈ مافیا کے رحم کرم پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اس قبضے میں سیاسی، مذہبی، سماجی تنظیموں کے ساتھ پولیس، انتظامیہ اور لینڈ مافیا کی چاندی ہوگئی۔ ٹرانسپورٹرز نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا اور بس ٹرمینل کی نہ منصوبہ بندی کی گئی نہ سنجیدگی نظر آئی۔ ٹرانسپورٹ کے محکموں کو بیک وقت 19 ادارے نگراں ہے لیکن ان میں ایک دوسرے سے نہ مشاورت ہے نہ رابطہ موجود ہے۔ بس ٹرمینل کی تعمیرات کا منصوبہ بنایا گیا نہ تجاوزات خالی کرانے کی کوشش کی گئی، نہ آمدن بڑھانے میں جنگی بنیاد پر کام کیا گیا۔اب میئر کراچی مرتضی وہاب نے ٹرمینل کی زمین کو نجی اداروں کو دینے کا اعلان کیا ہے اورحکومت سندھ لاوارث شہر کو جدید سٹی بنانے سے محروم کرنے کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہے۔ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جس کے اندرون شہر کے بس ٹرمینل پر قبضہ ہونے سے ٹرمینل اندرون شہر سے منتقل نہ ہوسکا۔ گذشتہ 50 سال سے بڑے بڑے دعویٰ کیئے گئے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ صرف بلوچستان سے آنے والی بس ٹرمینل پر یوسف گوٹھ بن چکا ہے۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ ایشیا کے دوسرے بڑے شہر کراچی کو سندھ سے آنے والوں نے لاوارث شہر سمجھ رکھا ہے۔ ان کیلیئے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ کراچی کی زمینوں پر قبضہ کر کے اس پر گوٹھ بنا دیا جائے جو قبضے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا، کشمیر، گلگت، چترال نادرن ایریا کے بس ٹرمینل موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ بسیں اندرونی سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہیں جس کے نتیجے میں آئے دن بڑے بڑے حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ اس سے کراچی میں بڑے بڑے معاشرتی و نفسیاتی مسائل جنم لے رہا ہیں جو کسی بھی وقت لاوے کی صورت میں پھٹ سکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں بشریٰ زیدی کا واقعہ ہوا تھا۔ کراچی میں سندھ اور دیگر صوبوں کے بس ٹرمینل کا معاملہ گذشتہ 22 سال سے حل نہ ہوسکا۔ یہ صرف اعلانات تک محدود ہے۔ بس ٹرمینل کی مختص اراضی کے الاٹمنٹ اور قبضہ نہ دینے میں اصل رکاوٹ بورڈ آف ریونیو سندھ اور حکومت سندھ کو قرار دیا جارہا ہے۔ تاخیری حربے کے نتیجے میں سرکاری سطع پر بس ٹرمینل کا قیام کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ دوسری جانب بس ٹرمینل شہر کے 100 مقامات پر ہونے کی وجہ سے شہری مختلف علاقوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں اور بس ٹرمینل کی مختص اراضی پر قبضہ سرکاری سرپرستی میں جاری ہے۔ آج تک کسی بورڈ آف ریونیو اور پولیس کے کسی ایک اہلکار کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہوسکی۔ بس ٹرمینل کے کاروبار میں بھتہ، کمیشن اور کیک بیک کا نظام یا سسٹم رائج ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپے آمدن سے محروم ہونے کے خطرے کے باعث قبضہ گروپ کو درپردہ حمایت کرنے کی مصدقہ اطلاعات اور رپورٹ موجود ہے۔مبینہ طور پر سپرہائی وے، نیشنل ہائی وے اور آر سی ڈی ہائی وے پر زمین کے الاٹمنٹ کا تنازعہ حل نہ ہونے اور مختص اراضی پر قبضہ کا مسئلے بورڈ آف ریونیو سندھ میں ایک تنازع کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ بورڈ آف ریونیو مختص زمین کی الاٹمنٹ اور قبضہ میں بھی براہ راست ملوث ہے پولیس اور دیگر ادارے بھی زمین پر قبضہ کے بندر بانٹ میں براہ راست ملوث و شریک ہیں۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ اور سدھ ہائی کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود سندھ حکومت بس ٹرمینل کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ واضح رہے کہ سپرہائی وے پر 100 ایکٹر، 100ایکٹر نیشنل ہائی وے اور 50 ایکٹر اراضی حب ریور آر سی ڈی ہائی وے پر مختص اراضی پر قبضہ ختم کرانے کا کام دم توڑ رہا ہے اور سپرہائی وے پر بس ٹرمینل کی100ایکٹر اراضی کے بعض حصوں پر سرکاری سرپرستی میں قبضہ کرکے گوٹھ آباد اسکیم کے تحت سند بھی جاری کر رکھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی میں گوٹھ آباد کی اسکیم پر سند جاری کرنے پر 2010ء سے پابندی عائد ہے لیکن لینڈ مافیا کے کارندے سے مل کر بورڈ آف ریونیو اور گوٹھ آباد کے اہلکار سند جاری کرنے کی تصدیق کی ہے۔ کراچی میں بس ٹرمینل کی 100 ایکٹر اراضی پر سندھ گورنمنٹ کو بلدیہ عظمی کراچی کے حوالے کرنا تھی جو 20 سال سے حل طلب ہے،لیکن ہر بار ایک نیا بہانہ اور جواز پیدا کرکے زمین کی الاٹمنٹ اور قبضہ دینے کا معاملہ تعطل کا شکار ہو جاتا ہے،کبھی بورڈ آف ریونیو اس اراضی کی منتقلی پر غور کرنے کا دعویٰ کرتا ہے،جبکہ دوسری طرف KMC کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور پیشن کی ادائیگی کے لئے کوئی فنڈ نہیں ہے۔ بس ٹرمینل کی رقم ادا کرنے کے قابل نہ ہونے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ 100 ایکٹر اراضی بس ٹرمینل بلدیہ عظمی کراچی کے حوالے کرنے کے مسئلے کے ساتھ سپریم کورٹ کی ہدایت پر 50 ایکٹر اراضی کی الاٹمنٹ برائے آئل ٹرمینل مواچھکو، حب ریور روڈ کے نزدیک بسمہ اللہ سینٹر تجاوزات کو دو ہفتے میں انہدام کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ BOR نے مین روڈ پر مختص اراضی کو صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست(فرنٹ مین) حسن علی بروہی نے جعلی کاغذات پر پیٹرول پمپ اور دیگر مارکیٹ الاٹ کرکے تعمیرات بھی کر دی ہے جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر غربی نے مختص اراضی کے بجائے مین روڈ سے تین کلومیٹر دور زمین الاٹ کردی ہے،جس کو آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن سمیت دیگر تنظیموں نے مسترد کردیا ہے اور چار سالوں سے عدالت کے آڈر کے باوجود سندھ حکومت ٹرانسپورٹ کا مسئلے حل کرنے کے بجائے رکاوٹ پیدا کررہی ہیں اور تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے تاکہ آراضی کو ٹھکانے لگایا جا سکے۔کراچی کے مختلف علاقوں میں 100 غیر قانونی بس ٹرمینل موجود ہیں،ان میں ایم اے جناح روڈ، ریلوے اسٹیشن، قیوم آباد، صدر، ماری پور، بنارس، گلشن اقبال، سہراب گوٹھ، کیماڑی سمیت دیگر علاقوں میں اپنا بس ٹرمینل قائم کر رکھا ہے ان میں واڈئچ، جیو مٹھل، شالیمار کوچز، شہریار کوچز، چوہدری ایکسپریس، زمیندار گرین، منٹھار، مکہ کوچز، الممتاز اور دیگر بسز اور کوچز شامل ہیں،جبکہ متنازعہ گٹر باغیچہ میں 35 ایکٹر اراضی پر نیا بس ٹرمینل قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ زمین KMC آفیسر ایسوسی ایشن ویلفیر کے نام الاٹ ہوچکا ہے اگر بس ٹرمینل کو الاٹ کی گئی تو افسران سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے گا۔ پہلے ہی عدالتی جنگ جاری ہے۔ کراچی میں سرجانی ٹاون، اورنگی ٹاون، بلدیہ ٹاون، ہاکس بے، لانڈھی، کورنگی، فیڈرل بی ایریا، صدر، کلفٹن کے 28 بس ٹرمینل کی اراضی پر قبضہ برقرار ہے اورنٹری نمبر 193ںسروے نمبر 681 دیہہ تھانو،سرجانی ٹاؤن منصوبہ میں شامل ہے۔ بس ٹرمینل کے لئے مختص کی گئی اور ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے افسران نے رانا منیر نامی ٹرانسپورٹر کو عارضی بنیاد پر الاٹ کی گئی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے تمام دستایزات کی جانچ پڑتال کے بعد KDA کے اعتراضات کو تسلیم کیا ہے اور ڈپٹی کمشنر کراچی کو زمین کی ملکیت کا 1955ء مہاجرین کالونی کی ادائیگی کردی گئی تھی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹیٹ اینڈ انفورسمنٹ KDA نے بس ٹرمینل کے پلاٹس پر قبضہ
خط نمبرNO.KDA/Addl.Dir/AEC/E&E/2024/623 بتاریخ 8 نومبرں2024ء کو جاری کیا گیا۔ پلاٹس نمبر ST-1 سیکٹر 5-H نارتھ کراچی کا رقبہ 2.52 ایکٹر یعنی گیارہ ہزار اسکوئر یارڈ پر دکانیں بن گئی ہیں۔ کالعدم کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے 07ڈپو یا بس ٹرمینل ایک سیکورٹی ادارے کی تحویل میں ہے جس سے قبضہ چھڑوانا ناممکن ہے جبکہ تین میں نئی بس سروس کو دے دیا گیا ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی بس ٹرمینل کو نجی ادارے کے حوالے کرنے اور سرمایہ کاری کا بظاہر منصوبہ بنارہے ہیں لیکن درحقیقت لوٹ سیل لگا رہی ہے اور پیداگیری کے نئے نئے منصوبے بلدیہ عظمیٰ کراچی میں بنائے جا رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *