تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
لیکن غزہ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد یہ کہنے کی ضرورت ہرگز نہیں رہی کہ اب بات اس سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ سادہ زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ پہلے فلسطین پر قبضہ جمایا گیا تھا، اب اس کا نام تک مٹا دینے کے منصوبے ہیں۔ بیت المقدس پر اسرائیل نے قبضہ کیا تو اسلامی کانفرنس نامی تنظیم وجود میں آئی۔ رباط میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کا غیر معمولی اجلاس ہوا۔ 1973 کی جنگ کے بعد تیل کا ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اب پچاس ہزار جیتے جاگتے انسانوں کو تہہ تیغ کر دینے کے بعد ٹرمپ غزہ کو ‘ امریکی ریاست’ بنا دینے پر تل گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ کیا کوئی سربراہ کانفرنس ہوئی؟ اگر ہوئی تو اس میں دشمن کا راستہ روکنے کے لیے کیا عملی اقدام کیا گیا؟ ان سوالات کا جواب میرے پاس نہیں، شاید کسی پاس بھی نہیں۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ مسلم دنیا حرکت میں آتی جس کے اثرات تل ابیب اور واشنگٹن سمیت ہر جگہ محسوس کیے جاتے لیکن اسے بدقسمتی کہنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ البتہ جماعت اسلامی نے اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے اسلام آباد میں ‘ایکو آف فلسطین ‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جس میں پندرہ بیس ملکوں کے مندوب اور قائدین شریک ہوئے۔ اس ‘ خشک سالی میں’ بارش کا یہ پہلا قطرہ ہے۔
فلسطین میں جنم لینے والے انسانی المیے اور اب حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کامنصوبہ سامنے آ جانے کے بعد ناگزیر تھا کہ او آئی سی کے زیر اہتمام کوئی ایسی سرگرمی ہوتی جس میں مسلم دنیا کے اہل دانش اور اسلامی حکومتیں نہایت سنجیدگی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھتیں اور کوئی قابل عمل حکمت عملی سامنے لاتیں۔ یہ نہیں ہو سکا تو اہل فلسطین سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو جماعت اسلامی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی۔
کانفرنس میں مسلم دنیا کی اسلامی تحریکوں کے قائدین، ارکان پارلیمان، دانش ور اور صحافی شریک ہوئے۔ کانفرنس کے جن اجلاسوں میں شرکت کا موقع میسر آیا، اس سے یہی اندازہ ہوا کہ مسلم دنیا سخت صدمے کی حالت میں ہے اور وہ مغربی دنیا کے جمہوری رویوں بلکہ دوہرے معیارات کے بارے میں سوال اٹھاتی ہے۔ اسی طرح مغربی ذرائع ابلاغ کے طرز عمل سے بھی انھیں شکایات ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ ریگولر میڈیا کے ساتھ ساتھ اب سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے حالانکہ وہ کماتے ہمارے یہاں سے ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری آواز کو دبا دیتے ہیں۔ کانفرنس کے میزبان اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی تقریر میں بھی ان ہی شکایات کی بازگشت سنائی دی گئی۔ ان مسائل کے حل کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ ممکن ہے کہ صدمے کی حالیہ کیفیت سے نکلنے کے بعد اس سوال کا جواب سامنے آ سکے۔ البتہ حافظ صاحب کی تقریر کا ایک نکتہ خاص طور پر اہم تھا جس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ اب مسلم دنیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ایک بار پھر دباؤ آنے والا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ مسلم دنیا کے حکمران اس بارے میں سوچنے کی ہمت بھی نہ کریں۔
حافظ نعیم الرحمن کا یہ انکشاف لمحہ موجود کا سب سے بڑا سوال ہے۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ طوفان اقصیٰ کی کارروائی نے معاہدہ ابراہیمی کو ناکام بنا دیا جس کے تحت مسلم ممالک یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے تھے۔ اگر یہ معاہدہ واقعی ناکام ہو گیا تھا تو اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے ایک نیا دبا ؤکیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ دبا ؤتو صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے اگر کسی وجہ سے معاہدہ ابراہیمی کی پشت پناہی کرنے والی طاقتیں کچھ مزید طاقت ور ہو گئی ہوں۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ فلسطین کے صدمے نے جذبات میں طلاطم برپا کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم دنیا کے اہل فکر جلد اس کیفیت سے نکلنے کی تدبیر کریں گے، ایسی صورت میں اس نوعیت کے سوالات کے جواب یقینا سامنے آئیں گے۔
کانفرنس میں مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے برصغیر کی تحریک آزادی کی روشنی میں فلسطین کی تحریک آزادی کا جائزہ لیا۔ میری گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ اقبال وہ پہلے آدمی تھے جنھوں نے سوال اٹھایا کہ نواب سراج الدولہ شہید، ٹیپو سلطان شہید، سید احمد شہید و شاہ اسماعیل شہید کے علاوہ 1857 کی جنگ آزادی میں ہمیں ناکامی ہوئی تو اس کا سبب کیا تھا؟ انھوں نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ دشمن مادی و حربی طاقت کے علاوہ علمی اور تیکنیکی اعتبار سے بھی بالادست تھا۔ اس وجہ سے ہمیں پے درپے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی ہر ناکامی ہمیںمنزل سے مزید دور کر تی رہی۔ اس تجزیے کے بعد انھوں نے بتایا کہ اگر ایک میدان میں ناکامی ہو رہی ہو تو دوسرے میدان میں قسمت آزمائی کرنی چاہیے خاص طور پر ایسے میدان میں جس میں ہمارا پلہ بھاری ہو۔ مختصراً یہ کہ انھوں نے علم، دلیل اور ووٹ کو ہتھیار بنانے کا مشورہ دیا پھر یہی حکمت عملی تھی جس کے نتیجے میں ہماری جہدوجہد کامیاب ہوئی یعنی ہم پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس تجربے کی کامیابی کے بعد بیسویں صدی کی آزادی کی کئی تحریکوں نے اپنی جدوجہد کے لیے یہی ماڈل اختیار کیا۔ میں نے تجویز کیا کہ فلسطین ہی نہیں کشمیر کی آزادی کے لیے بھی اقبال کی اس حکمت پر غور کرنا چاہیے۔
میری گفتگو کے نکات چوں کہ کانفرنس کی عمومی جذباتی فضا سے نسبتاً مختلف تھے، اس لیے انھیں کسی قدر حیرت کے ساتھ سنا گیا۔ گفتگو کے بعد بہت سے نوجوانوں نے مجھ سے اس بارے میں سوالات کیے چند ایک نے تنقید بھی کی تاہم مجموعی طور پر اس بارے میں تجسس زیادہ تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اسامہ رضی کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر خصوصی طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سیشن کے بعد ایران کے دو ٹیلی ویژن چینلوں نے بھی اسی بارے میں مجھ سے تفصیلی سوالات کیے۔ اکثر لوگوں نے جماعت اسلامی کو داد دی کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم سے ایک مقبول انداز فکر سے ہٹ کر مختلف نقطۂ نظر کو سامنے آنے دیا جو پاکستان میں تنگ نظری اور شدت کے ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔
اس کانفرنس کے اثرات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو اس نے یقینی طور پر ارتعاش پیدا کیا ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ کچھ عرصے سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر گفتگو ہو رہی ہے، اس انداز فکر کو یقینا زک پہنچے گی۔ اس طرح مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کا وہ مؤقف اجاگر ہو گا جس پر قائد اعظم کی چھاپ ہے۔ اس کانفرنس کو مسلم دنیا کی بہت سی خاص طور پر ترکیہ کی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔ اچھا ہو کہ اسی نوعیت کی کانفرنسیں مسلم دنیا کے مختلف ملکوں کے علاوہ اہم مغربی دارالحکومتوں میں بھی منعقد کی جائیں۔ اس سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں مسلم دنیا کا بیانیہ زور پکڑ سکے گا اور یہ عمل جذبات کی آندھی کو سنجیدہ غور و فکر کی تحریک میں بدل دے گا جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
جناب شاہد شمسی کا شمار جماعت اسلامی کے اُن راہ نماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے مولونا مودودی کی آنکھیں دیکھ رکھی ہیں ۔سقوط ڈھاکا کے وقت وہ مشرقی پاکستان میں تھے۔اسی طرح کراچی کے لسانی فسادات میں تو خود ان کے خاندان کو سانحات برداشت کرنے پڑے، بالکل اسی طرح جیسے میاں افتخار کا خاندان دہشت گردی کا شکار ہوا۔ اس کانفرنس کے انعقاد میں آصف لقمان قاضی کی پشت پر ان کا تجربہ اور جماعت کے نوجوان ذمے دار راشد عمر اولکھ کی محنت شامل رہی جس نے کانفرنس کی کام یابی یقینی بنا دی جس پر جماعت کے یہ تمام راہ نما مبارک باد کے مستحق ہیں،
ترے خط تری خوشبو
حال ہی میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی ایک اور کتاب’ ترے خط تری خوشبو ‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب ملک کے اُن ممتاز ادیبوں کے خطوط کا مجموعہ ہے جو ڈاکٹر اشفاق ورک کے نام لکھے گئے۔ نام ور شخصیات اور ادیبوں کے خطوط صرف تاریخ کا ایک معتبر ذریعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنے عہد مسائل و افکار کی باز گشت بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق نے ایک ایسے دور میں جب خط لکھنے کی خوب صورت روایت تقریباً دم توڑ چکی ہے، یہ خط سامنے لا کر ادب کی خدمت کی ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے اپنی روایت کے مطابق اس کتاب کو خصوصی اہتمام سے شائع کیا ہے جس پر وہ بھی شکریے کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب ادب سے دل چسپی رکھنے والوں خاص طور پر محققین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔
ڈاکٹر فاروق عادل