عقل اور عشق کی کشمکش ہماری زندگی کے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ جب علامہ اقبال جیسے شاعر نے کہا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
تو عقل مندوں نے اقبال کو جذباتی قرار دے دیا حالانکہ اقبال نے آتش نمرود میں کودنے والے جس عاشق کا ذکر کیا تھا وہ ایک پیغمبر تھا۔ عقل مند اہل دانش اور انکے سرپرست صاحبانِ اختیار اکثر اوقات اپنی مفاد پرستی اور کمزور موقف کو چھپانے کیلئے عشق و جنون پر جذباتیت کا لیبل چسپاں کردیتے ہیں۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ
عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم
جب اقبال نے آزادی کا خواب دیکھا تو مصلحت اندیش دوستوں نے انہیں احتیاط کا مشورہ دیا لیکن شاعر مشرق کے ہاں عشق سے مراد ایمان تھی۔ اقبال عقل کی اہمیت سے انکاری نہ تھے کیونکہ عقل زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے لیکن نگاہ مرد مومن تو ایمان کے جذبے سے ملتی ہے لہٰذا اقبال جذباتیت کے طعنے سنتے سنتے اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کی وفات کے بعد ایک مرد مومن نے اقبال کے خواب کو حقیقت بنایا۔ اس مرد مومن کے نام میں محمدﷺاور علی رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کردیا گیا تھا اور یہ محمد علی جناح تھے جن کو ہم قائد اعظم کہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور اسے خطبہ الٰہ آباد میں ایک تجویز کی صورت میں پیش کیا۔ قائد اعظم نے اس خواب کو حقیقت بنایا لیکن یہ دونوں صاحبان عشق و جنوں آج بھی صرف پاکستانیوں کیلئے نہیں بلکہ دنیا بھر کے حریت پسندوں کیلئے محترم ہیں۔ 15 اور 16 فروری کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام بین الاقوامی فلسطین کانفرنس میں بار بار علامہ اقبال اور قائد اعظم کا ذکر آتا رہا کیونکہ فلسطین کے بارے میں ان دونوں بزرگوں نے اپنی زندگی میں جو کچھ کہا وہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے۔ اس کانفرنس کو صدائے فلسطین قرار دیا گیا جس میں امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے مندوبین نے شرکت کی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے تجاویز پیش کیں۔ اس کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرار دادیں بہت اہم ہیں لیکن میرا اصل موضوع قرار دادوں سے زیادہ مسلم ممالک کے اہل اختیار کی مفاد پرستی ہے جو عقل اور حکمت کے نام پر دو ریاستی فارمولے کو مسئلہ فلسطین کا حل قرار دیتے رہے اور آج نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبھی اس دو ریاستی فارمولے کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اس دو ریاستی فارمولے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 29 نومبر 1947ء کو منظور کی جانے والی قرارداد سے جنم لیاتھا جسکے تحت سرزمین فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا۔ پہلا حصہ اسرائیل قرار پایا، دوسرا حصہ فلسطین قرار دیا گیا اور تیسرا حصہ یروشلم تھا جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ یروشلم کو ایک انٹرنیشنل سٹی قرار دے کر اس کی ٹرسٹی شپ اقوام متحدہ کے حوالے کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اس قرار داد نمبر 181 کو بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے بطور گورنر جنرل مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے 8دسمبر 1947ء کو امریکی صدر ٹرومین کے نام خط میں اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے پلان کو یو این چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں اور یہودیوں دونوں کیلئے مضر کہا۔ قائد اعظم کے خیال میں تقسیم فلسطین کا یہ منصوبہ ناقابل عمل تھا۔ چند سال پہلے جب پاکستان کے کچھ طاقتور لوگوں نے بعض عرب ممالک کے دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کیا اور خود سامنے آنے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے کندھے کو استعمال کرنے کی کوشش کی تو ایک جگہ میں نے قائد اعظم کی طرف سے ٹرومین کے نام لکھےگئے اس خط کا ذکرکیا۔ حسب توقع اسرائیل کےساتھ دوستی کے شوق میں مبتلا پاکستان کا طاقتور ترین شخص بھڑک اٹھا اور مجھے جذباتی قرار دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ میں نے اپنے کالم کے ذریعے اپنے موقف کو کھل کر بیان کیا تو میرے خلاف جوابی کالم لکھوائے گئے۔ جب وزیر اعظم عمران خان بھی ان طاقتور لوگوں کے قابو نہ آئے تو ان سے بھی اختلاف شروع ہوگیا اور پھر خان صاحب کی جرأت رِندانہ ان کی اقتدار سے محرومی کا باعث بنی۔ اقتدارسے محرومی کےبعد وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اس وقت میرا موضوع فلسطین کے معاملے پر علامہ اقبال اور قائد اعظم کی سوچ ہے جو آج بھی سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اسرائیلی ریاست نے اقوام متحدہ کی جس قرارداد سے جنم لیا اسرائیل نے خود اسی قرارداد کو تسلیم نہیں کیا اور 1967ء میں مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرلیا۔ اسی قبضے نے مشرق وسطیٰ میں ایک بحران پیدا کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 181 میں موجود دو ریاستی فارمولے کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے۔ جماعت اسلامی کی بین الاقوامی فلسطین کانفرنس میں امریکا سے جنوبی افریقہ تک کئی ممالک کے مندوبین نے اس دو ریاستی فارمولے کو مسترد کیا۔ اس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پلان کوبھی مسترد کیا گیا جو فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کہیں اور بھیجنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان مصر، اردن اور بحرین سمیت ان مسلم ممالک کیلئے سخت شرمندگی کا باعث بنا ہے جو اسرائیل کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے ہمارے سامنے اپنی عقل پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔ اب یہ سب کے سب یک زبان ہو کر ٹرمپ کے غزہ پلان کو مسترد کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے بیان نے فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت پر تصدیق کی نئی مہر ثبت کردی ہے۔ اقبال نے ضرب کلیم میں لکھا تھا۔
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پر مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
عرض یہ ہے کہ دو ریاستی فارمولے کی تدبیر ملیامیٹ ہو چکی۔ آج ٹرمپ ہر ملت ِمظلوم کے خریدار یورپ کیخلاف بھی تجارتی جنگ شروع کرنے کے درپے ہے۔ ملت ِمظلوم کا نیا خریدار ٹرمپ ہے۔ اس سے کسی کو خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے اگر آپ اپنی خیر چاہتے ہیں تو اقبال کے عشق و جنوں کی طرف لوٹیے۔
حامد میر