Light
Dark

مظفر وارثی کو بیچھڑے 14 برس بیت گئے

مظفر وارثی (23 دسمبر 1933 – 28 جنوری 2011؛ اردو: مظفر وارثی) ایک پاکستانی شاعر، ادیب، نغمہ نگار اور اردو کے اسکالر تھے۔ انہوں نے پانچ دہائیوں سے زائد عرصے تک شعر و ادب کی دنیا میں اپنی خدمات پیش کیں۔ انہوں نے نعتوں کا ایک بھرپور ذخیرہ تحریر کیا، اس کے علاوہ کئی غزلوں اور نظموں کے مجموعے بھی لکھے اور اپنی سوانح حیات “گئے دنوں کا سراغ” بھی لکھی۔

مظفر وارثی کا پیدائشی نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا۔ وہ Meerut (جو اب اتر پردیش، بھارت میں واقع ہے) کے ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد، الہاج محمد شرف الدین احمد، جو “صوفی وارثی” کے نام سے معروف تھے، ایک اسکالر، طبیب اور شاعر تھے۔ صوفی وارثی کو “فصیح الہند” اور “شرف الشعرا” کے خطابات سے نوازا گیا۔ صوفی وارثی، علامہ اقبال، اکبر وارثی، عظیم وارثی، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، احسن دانش، ابو الکلام آزاد اور مہندر سنگھ بیدی کے دوست تھے۔ ان کے خاندان نے انہیں گہری مذہبی تربیت دی۔ ان کا ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ مظفر وارثی اپنے پیچھے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑ گئے۔ ان کے پوتے امسال قریشی بھی ایک گلوکار، گٹارسٹ، کمپوزر، نغمہ نگار اور شاعر ہیں۔

مظفر وارثی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (پاکستان کا مرکزی بینک) میں ڈپٹی ٹریژرر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز پاکستانی فلموں کے لیے نغمے لکھ کر کیا، لیکن آہستہ آہستہ ان کا شاعری کا انداز اللہ اور رسول کی تعریف و مدح کی جانب مائل ہو گیا۔ انہوں نے بعد ازاں حمد اور نعتیں لکھنا شروع کیں۔ وہ “نواۓ وقت” کے اخبار میں حالات حاضرہ پر اکثر ایک دو اشعار لکھا کرتے تھے، اور اپنی وفات تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔ ان کی سب سے مشہور نعت “میرا پیغمبر عظیم تر ہے” ہے۔

مظفر وارثی 28 جنوری 2011 کو لاہور، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ انہیں لاہور کے جوہر ٹاؤن قبرستان میں دفن کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *