امریکہ کے صدر کا حلف اٹھانے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک گرما گرم نیوز کانفرنس کر ڈالی جس میں انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی کے اہم نکات بیان کئے ہیں اور ایک قیامت برپا کرنے کا اعلان کیا تاہم پاکستان کے بارے میں ٹرمپ نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے خاتمے میں اور اس ضمن میں روسی صدر سے ملنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ ٹرمپ نے امریکہ کے ہمسایہ ملکوں کینیڈا اور میکسیکو کے خلاف محصولات بڑھانے کی اپنی دھمکیوں کو دہرایا اور کہا کہ کینیڈا کو امریکہ کی ایک ریاست ہونا چاہئیے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ “ہم خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکہ کرنے جا رہے ہیں۔ شمالی امریکہ کے بڑے جزیرے گرین لینڈ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی اقتصادی تحفظ کے لیے ضرورت ہے۔ ٹرمپ نے گرین لینڈ، جو کہ ڈنمارک کا خود مختار علاقہ ہے، کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ امریکہ کیسے اس کا کنٹرول حاصل کرے گا۔ جب ان سے دو ٹوک الفاظ میں پوچھا گیا کہ آیا وہ گرین لینڈ اور اسٹریٹجک پاناما کینال کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عسکری یا اقتصادی دباؤ استعمال نہیں کریں گے تو انہوں نے جواب دیا،”میں آپ کو ان دونوں میں سے کسی کے بھی بارے میں یقین دہانی نہیں کروا سکتا۔ انہوں نے پاناما پر الزام لگایا کہ اس نے اس کنال کے حصول کے صدر جمی کارٹر کے دور میں چار دہائیاں قبل ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ دفتر میں اپنے پہلے دن کی سرگرمیوں کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ وہ “بڑی معافیاں” دینے کا اعلان کریں گے۔ ٹرمپ نے نے امریکہ کو ماحولیات کے حوالے سے متعارف کرائے گئے ضوابط کی “دلدل” سے نکالنے اور ارب پتی سرمایہ کاروں کے لیے راہ ہموار کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ سمندر سے تیل نکالنے کے بارے میں اپنے ارادے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں بائیڈن کے حالیہ حفاظتی احکامات کو الٹ دیں گے۔ ٹرمپ نے بائیڈن پر خارجہ پالیسی میں خرابی کا الزام لگایا اور کہا،” میں ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہا ہوں جو جل رہی ہے۔” مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ کے تناظر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے عسکریت پسند گروپ حماس کے ہاتھوں ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل اسرائیل سے یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ریاست فلوریڈا میں پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے یرغمالوں کی رہائی نہ ہونے کی صورت میں چھ بار زور دیتے ہوئے کہا کہ “قیامت برپا ہو جائے گی اور یہ حماس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا۔”