سر تھامس جے۔ لپٹن ، ایک برطانوی بزنس مین تھے ۔ 10 مئی 1850 کو پیدا ہوئے ۔ 2- اکتوبر 1931 کو خود تو دنیا سے چلے گئے ، مگر ہماری قوم کو چائے کا غلام بنا گئے ۔ آج ، ہماری قوم صبح اٹھے تو چائے ۔ شام ڈھلے تو چائے ۔ مہمان آ جائیں تو چائے ۔ سردی لگے تو چائے ۔ طبیعت اداس ہو تو چائے ۔ خوشی کا موقع ہو تو چائے ۔ اور لپٹن چائے کو برصغیر میں رواج دینے کا سہرہ انہی کے سر سجتا ہے ۔ بعد میں تو ، دیگر لوگ بھی اس فایدہ بخش کاروبار میں آ گئے ۔
میرے والدین کی جوانی کے دور میں ، چائے پینے پلانے کا رواج نہیں تھا ۔ لیکن تھامس لپٹن صاحب کو اپنا بزنس بڑھانا تھا ۔ لہذا شام ہوتے ہی ، رات گئے تک گلی محلوں میں چائے کی ریڑھیاں / ٹھیلے گھومنے لگتے ۔ کوئلے کی انگیٹھیوں میں چائے کا قہوہ ، اور دودھ رکھا ہوتا ۔ ساتھ میں شکر کا ڈبہ بھی ۔
ہر گھر کے سامنے صدا لگتی اور ہر کسی کو مفت میں گرما گرم چائے کا ایک کب پلایا جاتا اور ساتھ میں ، اس کے ” فواید ” بھی بتائے جاتے ۔
اور جب یہ قوم ، چائے کی عادی ہو گئی تو فری میں ملنے والی چائے نایاب ہو گئی اور دکانوں پہ چائے کی پتی ، مہنگے داموں بکنے لگی ۔
اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ چائے ، ہمارے رومانس کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔ اور وطن عزیر ، خالی خزانے کے باوجود ، ایک سال میں ایک سو ارب روپے سے زیادہ کی چائے کی پتی امپورٹ کرنے پہ مجبور ہے ۔
واہ ۔۔۔۔ کوئی بزنس سیکھے تو تھامس لپٹن سے سیکھے ، کہ لوگوں کو اپنی پراڈکٹ کی لت لگا گیا ۔ اب ایک غریب سے غریب شخص بھی چائے کی پتی ضرور خریدتا ہے ۔ چاہے اسے صدقہ خیرات یا ذکواۃ کے پیسوں سے خریدے ۔ حالانکہ چائے صرف ایک لت ہے ۔ ہماری ضرورت نہیں ہے ۔