Light
Dark

منیر نیازی ایک نہ بھولنے والا شاعر

اکادمی ادبیات پاکستان اور مجلس ترقی ادب کے زیرا ہتمام ادیبو ں اور شاعروں کے لیے مخصوص چائے خانے میں معروف شاعر منیر نیازی کی یاد میں ہونے والی تقریب بڑی اہمیت کی حامل تھی، اس چائے خانے کا افتتاح گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کیا تھا، جبکہ شہر کی بڑی ادبی تنظیموں کی جانب سے ہونے والی یہ پہلی تقریب تھی جس کی صدارت بیگم منیر نیازی نے کی۔ مہمان خصوصی مجلس ترقی ادب کے مقتدر منصور آفاق تھے۔ اس تقریب کی روداد سے پہلے میں بات کروں گا اپنی یادوں کی جو منیر نیازی صاحب سے جڑی ہیں۔عرصہ ہوا بچوں کی ایک تقریب یوم آزادی کے حوالے سے کسی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس کی صدارت جناب منیر نیازی کررہے تھے؟ میں بھی دیگر بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔میں نے جو نظم پنجابی میں یاد کی ہوئی تھی، مجھے نہیں پتہ تھا وہ کس کی ہے، مگر تقریب کے اختتا م پر مجھے نیازی صاحب نے آواز دے کر بلایا اور پوچھا کہ ایہہ نظم تینوں کنے یاد کرائی اے؟ میں نے کہا کہ میرے والد صاحب نے۔ انہوں نے پوچھا کی ناں اے تیرے پیو دا؟ میں نے کہا قدیر شیدائی تو ہنسنے لگے اور کہا اچھا توں ایں قدیر داپتر۔تو یہ میری پہلی ملاقات تھی منیر نیازی صاحب سے، اس کے بعد تو ہر علمی ادبی محفل اور مشاعروں میں ان سے ملاقاتیں ہونے لگیں جو ان کی وفات تک جاری رہیں۔ وہ مجھ سے ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے اور میں ہمیشہ اردو میں جواب دیتا ایک مرتبہ مجھے بڑی عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جب ریڈیو کی گاڑی پر یوم پاکستان کے مشاعرے کے لیے ان کو لانے کی ذمہ داری مجھے د ی گئی، کیونکہ ڈارئیور کو ان کے گھر کا پتہ نہیں تھا، دوسرا اسی گاڑی نے راستے سے دوسرے بزرگ شاعر مظفر وارثی صاحب کو بھی پک کرنا تھا۔

کبھی ان دونوں بزرگوں میں گاڑھی چھنتی تھی،مگر اب بول چال تک بند تھی جس کو ریڈیو حکام جانتے تھے۔ انہوں نے یہ کام مجھے سونپ دیا۔میں صداکار کی حیثیت سے کام کرتا تھا، ڈرائیور کے ساتھ چلا گیا، پہلے مظفر وارثی صا حب کو علامہ اقبال ٹاؤن سے لیا ،بعد میں منیر نیازی صاحب کو ٹاؤن شپ سے لیا۔ انہوں نے دور سے ہی گاڑی میں بیٹھے مظفر وارثی صاحب کو دیکھ لیا اور مجھے پہلے ہی کہہ دیا کہ میں آگے بیٹھوں گا میں نے آگے بڑھ کر گاڑی کا اگلا گیٹ کھولا اور ان کو بٹھا لیا، راستے بھر دونوں بزرگوں کے درمیان کوئی بات حتی کہ سلام ودعا بھی نہ ہوئی مشاعرے کے صدر منیر نیازی اور مہمان خصوصی مظفر وارثی تھے۔ ادھر ریڈیو میں ہلچل تھی کہ کوئی مسئلہ نہ ہوجائے، مگر دونوں نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا اور پروگرام ریکارڈ ہوگیا، واپسی پر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے نیازی صاحب نے مجھے کہا کہ پہلے مینوں گھر پہنچا دے۔ میں نے وارثی صاحب کی طرف دیکھا، انہوں نے کوئی بات نہیں کی، اس طرح یہ سفر اپنے اختتام کی جانب بڑھا ، دونوں بزرگ میرے والد کے دوست اور ہمارے گھر آتے جاتے تھے، شاید اسی وجہ سے میں ان کے لیے قابل قبول رہا۔ منیر نیازی صاحب کی برسی کی تقریب کے حوالے سے اکادمی ادبیات کے محمد جمیل صاحب کا فون آیا کہہ رہے تھے مدثر کل مجلس ترقی ادب میں منیر نیازی صاحب کی یاد میں پروگرام کررہے ہیں، آجانا،میں نے حامی بھر لی کیونکہ جمیل صاحب سے میرا تعلق آوارہ گردیوں کے دور سے ہے۔ یہ دوست تو میرے والد صاحب کے تھے، مگر ملاقاتیں میری ان سے ذیادہ ہیں۔میں ان کے سامنے بچپن سے جوانی تک آیا اور یہ یہ میرے سامنے جوانی سے بزرگی تک آگئے۔ لاہور کی کوئی ادبی نشست ایسی نہیں تھی جس میں ہم دونوں شامل نہ ہوں انہیں اکادمی ادبیات کی جانب سے شرکت کرنا ہوتی تو مجھے ویسے ہی علمی وادبی محافل سے لگاؤ تھا جو اب بھی ہے بہرحال میں اپنی عادت کے مطابق تھوڑا تاخیر سے پہنچا تو تقریب سینئرز کی گفتگو تک پہنچ چکی تھی۔
جمیل صاحب نے مجھے اشار ہ کیا کہ اگر کچھ بولو،مگر میں نے منع کرردیاکیونکہ اب میرے سننے کی باری تھی۔ ادھر تقریب سے اپنی گفتگو میں طاہر ابدال کہہ رہے تھے کہ منیر نیازی دوسرے شعراء سے مختلف تھے، وہ اپنی شاعری میں جان ڈالنا جانتے تھے۔ شفیق احمد خان نے دوران تقریب کہا کہ منیر نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنی الگ دنیا قائم کی اور اپنی شعری پہچان اپنے فن سے بنائی۔ ان کی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے ریڈر تھے، جبکہ ممتاز راشد لاہور ی کا اپنی گفتگو میں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ منیر نیازی کے اشعار میں حسن سلوک ہوا کرتا تھا اور ان کی آواز میں غم کی آمیزش شامل ہوتی تھی جس کے بعد ایم آر شاہد کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا منیر نیای محدود انداز میں لکھتے تھے اور ان پر سب سے بڑا اعتراز یہی تھا کہ انھوں نے کم لکھا،مگر جتنا لکھا وہ جامع تھا، جبکہ عدل منہاس لاہوری کا انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ غزل اور نظم کے نہ صرف بادشاہ، بلکہ وہ اپنی شخصیت اور شاعری میں بھی مختلف اہمیت کے حامل تھے۔ اس موقع پر تقریب کے مہمان خصوصی مقتدر مجلس ترقی ادب منصور آفاق کا کہنا تھا کہ منیر نیازی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ اچھی شخصیت کے مالک بھی تھے۔ مَیں خود بھی ان کے فن کا قدر دان ہوں۔ ان کی شاعری نئی فکر اور ڈکشن سے روشناس کراتی ہے جس کی جہتیں لامحدود ہیں آخر میں صاحب صدر بیگم منیر نیازی کا کہنا تھا کہ منیر نیازی محب وطن پاکستانی،اچھے شوہر اور عاشق رسولﷺتھے،نعتیں بھی بہت سنتے تھے۔ ان میں منافقت نہیں تھی، وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نے ہر انسان کو کسی کا م کے لیے چنا ہے اور مجھے شاعری کے لیے چن لیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نیازی صاحب کا نام قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔منیر نیازی کی یاد میں ہونے والی تقریب تو ختم ہوگئی، مگر میرے ذہن میں جو یادیں ان کے حوالے سے پیوست اور روشن ہیں،ان کا خاتمہ ناممکن ہے ……نسیم بیگم کی گا ئی ہوئی برسوں پہلے کی غزل ……”اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *