Light
Dark

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔ جشن کراچی 2024ء کا آغاز کردیا گیا

17 ویں عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی کامیابی کی ایک بہت بڑی نوید ہے،وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ

احمد شاہ آرٹس کونسل کے مولا جٹ ہیں، کراچی بڑا شہر ہے جلد اچھا ہو جائے گا، معروف مزاح نگار انور مقصود

عالمی اردو کانفرنس نے بتایا کہ ادیبوں کا معاشرے میں کیا کردار ہے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ

کراچی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی 2024ء کا آغاز کر دیا گیا، سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔ جشن کراچی کا افتتاح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا، اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ، صوبائی وزیر ثقافت سندھ سید ذوالفقار علی شاہ ، چیف سیکریٹری سندھ سید آصف حیدر شاہ، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، انور مقصود ، افتخار عارف ، منور سعید ، پروفیسر اعجاز فاروقی نورالہدیٰ شاہ، صحافی مظہر عباس، سہیل وڑائچ ، ڈاکٹر سعید قریشی (وائس چانسلر ڈاﺅ یونیورسٹی )، سروش لودھی (وائس چانسلر این ای ڈی ) ، خالد عراقی (وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی)، ڈاکٹر طارق رافع (چیئر مین ایچ ای سی)، ثروت محی الدین، اباسین یوسف زئی، ڈاکٹر عشرت حسین، اظہر عباس، رمضان بلوچ اسٹیج پر موجود تھے، کانفرنس کا آغاز قومی ترانہ سے کیا گیا، سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی 2024ءمیں آرٹس کونسل کے 70سال مکمل ہونے پر شو ریل دکھائی گئی جس میں احمد شاہ کی صدارت میں آرٹس کونسل میں ہونے والے ترقیاتی کام، ورلڈ کلچر فیسٹیول، یوتھ فیسٹیول، پاکستان کلچر فیسٹیول، عالمی اردو کانفرنس اور فن و ثقافت کے فروغ کے لیے کی جانے والی خدمات کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا، اردو کانفرنس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے استقبالیہ خطبہ جبکہ معروف صحافی و دانشور اور کالم نگار غازی صلاح الدین کلیدی خطبہ پیش کیا ، تقریب میں آرٹس کونسل کے قیام کے 70 سالہ جشن کے موقع پر کیک بھی کاٹا گیا اور سفید رنگ کے کبوتر بھی اڑائے گئے، مہمانِ خصوصی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاکہ ستر ھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی پر اہل علم،ادب و ثقافت کے درمیان موجود گی باعث مسرت ہے، جب سے وزیراعلیٰ بنا ہوں تب سے عالمی اردو کانفرنسوں میں مسلسل شریک ہورہا ہوں،اردو کانفرنس ہمارے شاندار تہذیبی ورثے اور پاکستان کی پائیدار ثقافتی میراث ہے،آرٹس کونسل کا ہر میگا فیسٹیول دنیا بھر کے فنکاروں، ادیبوں اور دانشوروں کو آپس میں جوڑتا ہے ، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے 70 سالہ شاندار سفر کو جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے ،آرٹس کونسل کواحمد شاہ اور ان کی ٹیم نے ایک بار پھر افق پر پہنچادیا ہے، یہ ایک بڑی کامیابی ہے، میں احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو انتھک محنت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس ادارے کا قیام 1954 میں سندھ میں رکھا گیا جو تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہے، اب یہ نئے اور جدید آئیڈیاز کی تخلیق کا مرکز بن چکا ہے، 17 ویں عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل کی کامیابی کی ایک بہت بڑی نوید ہے، آرٹس کونسل کو بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہے، انہوں نے کہاکہ ایک ماہ قبل ہم یہاں ورلڈ کلچر فیسٹیول ایوارڈ کی تقریبمیں بھی شریک ہوئے جس میں 44 ممالک سے فنکاروں نے شرکت کی اور مسلسل 38 دنوں تک کراچی میں پرفارم کرتے رہے، کلچر فیسٹیول نے لوگوں کے منہ بند کردیے، احمد شاہ کو فون پر جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں مگر انہوں نے ثقافت کے لیے اپنی خدمات کو جاری رکھا اور کراچی نہیں چھوڑا، مجھے خوشی ہے کہ آرٹس کونسل آئندہ سال اس سے بھی بڑے فیسٹیول کی تیاری میں ہے ، ان ادبی سرگرمیوں سے کراچی دنیا کے نقشے میں عالمی ثقافتی مرکز بن کر ابھررہا ہے، جہاں فن و ثقافت قوموں کو جوڑنے اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے پل کا کردار ادا کرتے ہیں ہم نے ہمیشہ اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتو اور بلوچی مصنفین اور رائٹرز کی ادبی خدمات کو سراہا ہے، انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا ، جن دانشوروں نے اپنی زندگیاں زبان و ادب کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہیں جو ہم سب کے لیے قابل فخر ہیں، ہم آج عالمی اردو کانفرنس کے ذریعے ان زبانوں کا بھی جشن منا رہے ہیں جس سے پاکستان کے مختلف علاقوں، برادریوں کے درمیان اتحاد کو مضبوطی مل رہی ہے ، آج آپ سب نوجوانوں کو سامنے دیکھ کر بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے، عالمی اردو کانفرنس فورم نوجوان نسل کو اپنی تہذیبی و ثقافتی ورثے سے جوڑنے میں منفرد موقع کردار اداکرتا ہے، اس سے ایک مشترکہ قومی شناخت پروان چڑھے گی اور نفرتوں کا خاتمہ ہو گا، یہی پاکستان کا روشن چہرہ ہے جسے آرٹس کونسل دنیا کے سامنے لا چکا ہے، اس کانفرنس کاٹیگ لائن جشن کراچی ہے، کراچی وہ شہر ہے جہاں مجھ سمیت ہم سب کی پرورش ہوئی، جس نے ہمیں مختلف شعبوں میں لا تعداد روشن ستارے دیئے، ہم اس خوشی میں آج جشن منا رہے ہیں ، آرٹس کونسل کی سرگرمیاں بلاشبہ قابل تحسین ہیں، ہمارا تعاون ان کے ساتھ ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا، یہاں نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ کے نوجوانوں کی فنکارانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھا یا جاتاہے، یہ سرگرمیاں ہمارے نوجوانوں میں اپنی تہذیبی، علمی اور ثقافتی نسبتوں سے قریبی احساس پیدا کر تے ہیں، ہم اپنا کام کرتے رہیں گے اور اپنی نسلوں کے روشن مستقبل کو مزید روشن کریں گے۔معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصود نے کہاکہ آج صرف ”کراچی“ پر بات ہوگی، جب میں کراچی آیا تو 7کروڑ سے زیادہ آبادی تھی اور آج 24کروڑ ہے، کراچی عجیب حالات سے گذرا ہے، میں نے کراچی کی میں عروج پانے والی پارٹی کا زوال بھی دیکھا ہے، انہوں نے کہاکہ کراچی میں مردم شماری تو ہوتی ہے مگر اس میں صرف مردوں کو گنا جاتا ہے، عورتوں کی کوئی گنتی نہیں، کراچی بڑا شہر ہے ، بڑے لوگ رہتے ہیں ، ان شاءاللہ اچھا ہوجائے گا، کراچی آگے جاسکتا ہے پیچھے نہیں جائے گا کیونکہ پیچھے سمندر ہے، مرتضیٰ وہاب نوجوان ہیں نہیں مگر لگتے ہیں، احمد شاہ آرٹس کونسل کے مولا جٹ ہیں، آج آرٹس کونسل جس مقام پر ہے اس میں سندھ حکومت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ کینیڈا، امریکا، نیویارک ، ہوسٹن، لندن ، پیرس، جاپان، قطر ،ایلے سمیت دنیا بھر سے اردو سے محبت کرنے والے لوگ یہاں موجود ہیں، ہم نے کراچی شہر میں قتل خون اور لاشیں دیکھی ہیں، جب ہم نے سات دن کی کانفرنس کی تو بمبئی میں بم دھماکے ہوئے ، افتخار عارف کی صدارت میں مشاعرہ ہورہا تھا۔، ہم نے اس کو نہیں روکا مشاعرہ جاری رہا، ہم نے آرٹس کونسل کی لائٹیں بند کرکے مشاعرہ کیا، عالمی اردو کانفرنس نے یہ بتایا کہ ہمارے ادیبوں کا معاشرے میں کیا کردار ہے، جب آپ کی تہذیب ختم ہوجاتی ہے تو آپ کی کوئی شناخت نہیں رہتی، ہم نے بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے، ہم نے کوئٹہ میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کیااپوزیشن اور گورنمنٹ کو ایک ساتھ بٹھایا، حالات بہت خراب تھے مجھے کہا گیا کہ اگر احمد شاہ الیکشن لڑے گا تو مارا جائے گا، میں نے ہمت نہیں ہاری اور ثقافت کی فروغ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی، آرٹس کونسل کی گرانٹ دس ہزار روپے تھی مگر آج کروڑوں میں اس کی گرانٹ ہے، سیکورٹی کے شاندار انتظامات کرنے پر تمام قانون نافذ کرنے والوں اداروں کا شکر گزار ہوں۔ غازی صلاح الدین کی کلیدی خطبہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم جس کراچی کا جشن منا رہے ہیں جو نفرتوں کو ختم کرکے محبت کا درس دیتا ہے، ادب اور کلچر کا فریضہ ہے کہ وہ سوچنے اور خواب دیکھنے کو ممکن بنائے جو آرٹس کونسل بنا رہا ہے، آرٹس کونسل نے کراچی کے اجتماعی شعور کو جگایا، ہم نے اس شہر کو اپنے بعد آنے والی نسلوں سے مستعار لیا ہے، اب یہ ضروری ہے کہ آج کے نوجوانوں کو یہ حق واپس لوٹا دیں گے، نوجوان شہر کے وارث ہیں، یہ سچ ہے کہ بہت کچھ ہمارے بس میں نہیں ہے مگر شہری پر لازم ہے اخلاقی اور قانونی پاسداری کا احترام کرے۔ انہوں نے کہاکہ احمد شاہ کی جادوگری مسلسل ہمیں حیران کرتی ہے، ثقافت وہ واحد چیز ہے جو ہمارا سر فخر سے بلند کرسکتی ہے، کراچی دنیا کے سب سے بڑے شہروں کی فہرست میں کھڑا ہے، گزشتہ 70سالوں سے تبدیلی کا سفر جاری ہے، کراچی شہر کو سمجھنا ایک ایسا کام ہے جو توجہ چاہتا ہے۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے 6مختلف ادیبوں کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، پشتو کے ممتاز شاعر، کالم نگار، محقق اور نقاد پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسف زئی، بلوچی زبان کے معروف مصنف، دانشور اور علمی و ادبی شخصیت رمضان بلوچ، پنجابی زبان کی معروف شاعرہ، نثر نگار ، مترجم و مصنفہ ثروت محی الدین ، سرائیکی کے معروف ادیب، شاعر اور دانشور رفعت عباس کو علمی و ادبی خدمات پر جبکہ ثقافت کے فروغ پر عبدالحمید اخوند شامل ہیں، ماہرِ تعلیم پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کا ایوارڈ خالد عراقی، عبدالحمید اخوند کا ایوارڈ نور الہدیٰ شاہ نے وصول کیا۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں آرٹس کونسل کے قیام کے 70 سال مکمل ہونے اور جوش ملیح آبادی کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا ، افتتاحی اجلاس کے اختتام پر محمد احمد شاہ نے آرٹس کونسل کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو شیلڈ پیش کی۔علاوہ ازیں ”میں ہوں کراچی“ میں تابش ہاشمی اور وسیم بادامی نے مزاحیہ انداز میں کراچی اور اس کے اہم مقامات کے بارے میں نوجوان نسل کو بتایا ، تابش ہاشمی کے مزاحیہ جملوں پر پنڈال قہقہوں سے گونج اٹھا، آخر میں معروف شاعر عمیر نجمی نے کلام سنا کر شائقین سے داد سمیٹی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *