Light
Dark

علامہ محمد اقبالؒ کے ملازمین

یہ 9 نومبر 1914ء کا دن تھا۔ علامہ محمد اقبال غم کی شدت سے نڈھال تھے کیوں کہ ان کی ماں وفات پاچکی تھی۔ جب تدفین کا وقت آیا تو علامہ محمد اقبال ایک جملہ دہرانے لگے: ”ماں تو نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں۔“ ایک جاننے والے نے پوچھا کہ ہر ماں اپنے بچوں پر احسان کرتی ہے پھر آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟علامہ محمد اقبال کہنے لگے کہ”ایک دن میری ماں نے مجھ سے معافی مانگی جس پر میں حیران ہوا اور ان سے کہا کہ آپ کا رتبہ بہت بلند ہے آپ مجھ سے معافی کیوں مانگ رہی ہیں۔ وہ بولی کہ جب تو بچہ تھا تو چند دن میں تجھے اپنا دودھ نہ پلاسکی۔ دراصل تمھارے والد برقعوں کی ٹوپیاں بناتے تھے، ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے قیمت دو آنے سے سوا دو آنے کردی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اب ہمارے گھر میں ناجائز کمائی آرہی ہے، چنانچہ میں تجھے بکری کا دودھ پلانے لگی۔ ان دنوں میں کافی بے چین رہا کرتی تھی، ایک دن تمھارے والد نے پوچھا تو میں نے اپنی تشویش کا اظہار کر دیا۔ انھوں نے کہا، آپ کو چاہیے تھا کہ مجھ سے بات کرلیتی، دراصل پہلے ہم ٹوپی پر ایک سلائی کیا کرتے تھے، اس کی قیمت دو آنے تھی۔ اب دو سلائیاں کرنے لگے ہیں جس پر خرچہ زیادہ آتاہے اس وجہ سے ہم نے قیمت بڑھا دی ہے۔“

جب ایسی عظیم ماں ہو تو اس کی آغوش میں تربیت پانے والا بچہ علامہ محمد اقبال جیسا عاشق رسول ہی ہوگا۔ علامہ صاحب کی ماں امام بی بی ایک خوش اخلاق، معاملہ فہم، سخی اور عبادت گزار خاتون تھیں جنھوں نے علامہ محمد اقبال کی تربیت پرہیزگاری کی بنیاد پر کی اور اپنے بیٹے کے دل میں بھی خوف خدا، عشق مصطفی اور دین کی عظمت ڈالی اور اسے ادب و احترام سے مزین کیا۔ علامہ محمد اقبال کی اخلاقی تربیت میں ان کے والدین نے بھرپور کردار ادا کیا جب کہ علمی و فکری تربیت کے لیے انھیں مولانا سید میرحسن اورپروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ جیسے اساتذہ ملے جنھوں نے علامہ محمد اقبال کی زندگی کا رُخ متعین کیا۔ یہ تمام وہ معروف نام ہیں جو بے شمار کتابوں، مقالوں اور تاریخی دستاویزات میں موجو دہیں، البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال علامہ صاحب کے گھر میں گزارے اور ان کی ذاتی زندگی کو آسان بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا لیکن افسوس کہ آج زیادہ لوگ انھیں نہیں جانتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علامہ محمد اقبال پر لکھی جانے والی اکثر کتابوں میں ان افراد کا معمولی تذکرہ تو ہے لیکن تفصیلی حالات نہیں۔

میں طویل عرصے سے اس بات کا خواہش مند تھا کہ علامہ محمد اقبال ؒ کے ذاتی ملازمین جنھوں نے دل و جان سے علامہ صاحب کی خدمت کی، ان کی کاوشوں اور حالات زندگی کو منظر عام پر لایا جائے۔ ڈیڑھ سال پہلے میں ایک تقریب میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم صاحب سے ملا۔ڈاکٹر صاحب ایک شان دار محقق، مصنف اور استاد ہیں۔ وہ اقبالیات کے موضوع پربھرپور مہارت رکھتے ہیں اور اب تک چالیس سے زیادہ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن تشریف لائیں اور علامہ صاحب کے ملازمین کے حالات زندگی پر ایک لیکچر دیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کا ممنون ہوں کہ انھو ں نے میری دعوت قبول کی اور ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسی نشست کا انعقاد کیا جس میں علامہ محمد اقبال کے ملازمین کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے انتہائی عمدہ گفت گو کی جو آج کی تحریر میں آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔

علی بخش
یہ علامہ اقبال کا ذاتی ملازم تھا جو چالیس سال تک ان کے گھر میں رہا۔ علی بخش 1888ء میں پیدا ہوا اور 14سال کی عمر میں کام کرنے کے لیے لاہور آیا۔ کسی جاننے والے کی سفارش پر مولوی حاکم الدین نے اسے اپنے گھر میں چار روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ ایک دن وہاں علامہ محمد اقبال تشریف لائے، انھوں نے علی بخش کی خدمت دیکھی تو بہت متاثر ہوئے او رمولوی حاکم الدین سے کہا کہ یہ ملازم مجھ