چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں سچ کیا ہوتا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔
رہنما نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سچ کیا ہوتا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے ہم تو صرف کاغذوں پر چلتے ہیں۔ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا ہوتا ہے، وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے تو دوسرے کو نہیں۔ ہوسکتا ہے ہم نے بے پناہ فیصلے غلط کیے ہوں۔ میری آزادی میں کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج میں آئین و قانون کی بات نہیں کروں گا بلکہ وہ باتیں کروں گا جو شاید آپ کو پتہ نہ ہوں۔ میرا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میں نے اپنے دور میں بار اور بینچ سے بہت کچھ سیکھا۔ میرے پیشے اور شادی کو 42 سال ہو چکے ہیں۔ میری والدہ نے کہا پہلے ڈگری کر لو پھر جو مرضی کرنا۔ ڈگری مکمل کر کے شادی کی اور پھر وکالت کا آغاز کیا۔ ایک دن چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بلا کر کہا آپ بلوچستان سنبھالیں۔
انہوں نے ذاتی زندگی کے گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میری زندگی میں ویٹو پاور میری اہلیہ کو حاصل ہے۔ اپنی اہلیہ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بلوچستان کے ان اضلاع میں بھی اہلیہ کے ساتھ گیا جہاں جانےسے منع کیا جاتا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہیں اور وہ ہمیں بھی سکھاتے ہیں۔ ہماری زندگیاں گزر چکی ہیں اور بچوں کی زندگیاں شامل ہیں۔ میرے صاحبزادے ارسلان پاکستان آئے، تو اس کو کہا مجھ سے کچھ مت کہنا، پھر اس نے خود لاہور میں نوکری کی جس کی تنخواہ 75 ہزار روپے تھے۔ بیٹے نے کہا کہ بابا 75 ہزار میں گزارا نہیں ہوتا میں نے کہا گزارا کرو۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواسی نے کہا دوست ناراض ہیں کہ مارگلہ ہلز پر ریسٹورنٹ کیوں گرانے کا حکم دیا۔ یہ پرندوں اور جانوروں کا گھر تھا، ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھا، ماحول اچھا نہ رہا تو جانوروں کی انسانوں کا بھی دنیا میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اللہ اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے چیف جسٹس بنایا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کی کاز لسٹ بنانے میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کرنے اور نہ کرنے والے دونوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر ججز کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔