ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ جو بحث جاری ہے وہ سپریم کورٹ میں اصلاحات سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کے گرد گھوم رہی ہے، مگر اس میں سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کر کے بھی ایک سنگِ میل طے کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے ملک میں سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ گو کہ اس حوالے سے تند و تیز مباحث اور تبصرے نہیں ہو رہے مگر اس قانون سازی پر ملا جلا ردعمل دیا جارہا ہے۔
اسلامی مالیاتی اور معاشی نظام پر سند مانے جانے والے مولانا تقی عثمانی نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو سوشل میڈیا پر نہ صرف مبارک باد دی بلکہ اسلام آباد میں مولانا کے گھر جاکر انہیں گلے لگایا اور جبہ و دستار پیش کی۔ مگر بعض حلقوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سود کو دراصل مزید چار سال کے لئے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے۔ سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال کے بعد جماعت اسلامی کی پٹیشن پر اپریل 2022 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملک سے سود کے خاتمے کا سال 2027 مقرر کیا تھا۔ پہلے حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر بعد ازاں عوامی اور سیاسی ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نومبر 2022 میں اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت سود کے خاتمے کے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جس نے گزشتہ تقریبا دو سال میں بہت سا کام کر لیا ہے۔ اور اب اس کمیٹی کو پہلے سے زیادہ فعال طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ مگر کیا حکومت مقررہ وقت تک سودی نظام کو ختم کر پائے؟
وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے حوالے سے ملک کے ایک نجی بینک کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایک بینک اپنے کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے لین دین کو سود سے پاک کر کے اسلامی مالیات پر منتقل کرسکتا ہے تو ملکی نظام کو بھی اس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس اینڈ ایڈوائزی فیصل شیخ کہتے ہیں کہ روایتی اسلامی مالیاتی ادارہ بننے کا فیصلہ سال 2015 میں کیا تھا۔ اس وقت جب یہ فیصلہ کیا گیا تو ہمارے بینک جتنے بڑے حجم کے کسی بینک نے مکمل طور پر اپنے کاروبار کو شرعی مالیاتی ماڈل کے مطابق نہیں اپنایا تھا۔ اور دنیا میں کوئی ایسی مثال بھی موجود نہ تھی کہ جس پر عمل کرتے ہوئے بینک کو شرعی مالیاتی نظام پر منتقل کیا جائے۔ بینک کو جو بھی کام کرنا تھا وہ کام اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس مقصد کے لئے بینک انتظامیہ نے نیا سودی قرضہ دینے اور اکاؤنٹ کھولنے پر ایک تاریخ کے بعد پابندی عائد کردی اور پھر بینک نے تمام کھاتے داروں کو تحریری طور پر مطلع کیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو روایتی سے اسلامی کھاتوں میں تبدیل کر دئیے گئے ہیں ۔