چاند کا مالک کون ہے؟ اور اسے کس کی ملکیت میں ہونا چاہیے؟
جیسے جیسے چاند پر مختلف خلائی مشن بڑھ رہے ہیں، ایک اہم سوال نے دنیا بھر کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے: “چاند کا مالک کون ہے؟” 1967 کے دور میں، جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، ایک معاہدہ کیا گیا تھا جسے “آؤٹر اسپیس ٹریٹی” کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کو 100 سے زیادہ ممالک نے سائن کیا، جس میں یہ واضح کیا گیا کہ چاند “پوری انسانیت کی ملکیت” ہے اور کوئی بھی ملک اسے اپنی ملکیت قرار نہیں دے سکتا۔
لیکن اب جب کہ خلا میں تجارتی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں اور چاند کے وسائل کے حصول کی دوڑ شروع ہو چکی ہے، اس معاہدے کے اصولوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ چاند پر پائے جانے والے قیمتی وسائل، خاص طور پر نایاب دھاتیں اور “ہیلیم-3” جو مستقبل کی توانائی کے لیے بہت اہم ہے، مختلف ممالک اور کمپنیاں اپنی توجہ چاند کی طرف مرکوز کر رہی ہیں۔ اس سے بہت سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں، جیسے کیا چاند کے وسائل کو نکالنا اور بیچنا قانونی ہے؟ اور کیا کوئی ملک چاند پر قبضہ جما سکتا ہے؟
کچھ ممالک نے چاند سے وسائل نکالنے کے حوالے سے اپنے قوانین بنانا شروع کر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر، امریکہ نے 2015 میں ایک قانون منظور کیا جس کے تحت امریکی شہری اور کمپنیاں چاند کے وسائل نکال اور بیچ سکتی ہیں۔ اسی طرح، لکسمبرگ، جاپان، اور بھارت نے بھی ایسے ہی قوانین بنائے ہیں، جس سے عالمی قانونی منظرنامہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
1979 میں ایک اور معاہدہ، “قمری معاہدہ”، سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ چاند اور اس کے وسائل “پوری انسانیت کی مشترکہ وراثت” ہیں اور انہیں بین الاقوامی ضوابط کے بغیر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، اس معاہدے کو بڑی خلائی طاقتوں جیسے امریکہ، چین اور روس نے نظرانداز کیا۔
یہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ چاند کے وسائل پر قبضہ کرنے کی دوڑ کہیں طاقتور ممالک اور بڑی کمپنیاں اپنی مرضی کے مطابق وسائل کو ہڑپ نہ کر جائیں۔ اس دوڑ سے مستقبل میں خلا میں ایک نئی قسم کی “گولڈ رش” یا وسائل پر قبضے کی جنگ چھڑ سکتی ہے، جہاں کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہوگا، اور خود غرضی، مقابلہ بازی اور طاقت کا کھیل چلے گا۔
امریکہ کی طرف سے پیش کیے گئے “آرٹیمس ایکارڈز” اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل پیش کرتے ہیں۔ یہ ایکارڈز چاند کی دریافت اور وسائل کے استعمال کے لیے نئے اصول و ضوابط متعارف کراتے ہیں اور 1967 کے آؤٹر اسپیس ٹریٹی کی پاسداری پر زور دیتے ہیں۔ تاہم، ان ایکارڈز کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کیونکہ یہ قانونی طور پر پابند نہیں ہیں اور بعض ناقدین کے مطابق یہ امریکی مفادات کو زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ایک نئی “خلائی دوڑ” کی شروعات ہو چکی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ چاند کے وسائل کے حصول کی دوڑ بھی۔ اگر اس کو بہتر طریقے سے منظم نہیں کیا گیا تو یہ عالمی تعاون کے بجائے تصادم اور خودغرضی کا باعث بن سکتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ایک نیا معاہدہ تشکیل دیا جائے جو چاند اور دیگر خلائی وسائل کی ملکیت، استعمال اور حفاظت کے اصول طے کرے۔ یہ معاہدہ اس بات کو یقینی بنائے کہ چاند کے وسائل کو تمام انسانیت کے فائدے کے لیے پرامن اور پائیدار طریقے سے استعمال کیا جائے۔ کیا ہم ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں چاند کا ہر ٹکڑا بڑی طاقتوں کی ملکیت بن جائے گا؟ یا ہم ایک منصفانہ اور مشترکہ نظام بنا پائیں گے؟ یہ سوالات نہ صرف چاند بلکہ ہماری پوری انسانیت کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔