Light
Dark

کراچی: ایک ہی گھر میں چار خواتین کا قتل، تین ماہ کی بچی زندہ برآمد

کراچی کے علاقے بغدادی میں پیش آنے والے ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں ایک ہی خاندان کی چار خواتین کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقتولین کے جسموں پر تیز دھار آلے سے کیے گئے گہرے زخم تھے اور ان کے گلے کاٹے گئے تھے۔ حیرت انگیز طور پر، ان میں سے ایک خاتون کی تین ماہ کی بچی بیڈ کے نیچے زندہ پائی گئی۔
یہ ہولناک واقعہ 19 اکتوبر کی رات بغدادی کے ایک رہائشی علاقے میں پیش آیا جہاں فلیٹ کے اندر چار خواتین کی لاشیں ملیں۔ پولیس کے مطابق مقتولین میں 60 سالہ شمشاد بیگم، ان کی بیٹی مدیحہ، بہو عائشہ، اور 12 سالہ نواسی علینہ شامل ہیں۔ اس لرزہ خیز واقعے نے پورے شہر کو سوگوار کر دیا ہے اور لوگ غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق اس سانحے کے پیچھے مقتولین کے خاندان کے ہی ایک فرد، 24 سالہ بلال، کا ہاتھ ہے۔ بلال، جو شمشاد بیگم کا بیٹا اور مقتول مدیحہ کا بھائی ہے، نے اپنے گھر والوں کے ساتھ جاری تنازعات کے بعد اس سفاکانہ قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔
تفتیشی افسران کے مطابق بلال کی جانب سے قتل کی بنیادی وجہ گھریلو مسائل اور جائیداد کی تقسیم پر تنازعہ تھا۔ بلال نے پولیس کو بتایا کہ وہ کئی دنوں سے اپنی والدہ اور بہنوں سے جائیداد اپنے نام کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا، لیکن انکار پر اس نے انتقامی طور پر یہ قدم اٹھایا۔ مزید برآں، بلال اپنی طلاق کا ذمہ دار بھی اپنے خاندان کو ٹھہراتا تھا اور اس بات پر ناراض تھا کہ اس کی بیوی کے ساتھ علیحدگی کے بعد گھر والوں نے اس کی حمایت نہیں کی۔
تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ بلال کا اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ تھے۔ بلال کی حالیہ طلاق نے ان تعلقات میں مزید دراڑ ڈال دی۔ پولیس کے مطابق بلال نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی اور اس کا الزام وہ اپنے خاندان کے “آزاد خیالات” پر لگاتا تھا، جسے وہ اپنی زندگی کی ناکامی کی وجہ سمجھتا تھا۔
قتل کے دن بلال نے نپیئر کے علاقے سے ایک تیز دھار چاقو خریدا اور موقع کا انتظار کرنے لگا۔ رات کے وقت جب گھر کے مرد افراد موجود نہیں تھے، تو بلال نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
محمد فاروق، جو مقتولین میں شامل شمشاد بیگم کے شوہر اور خاندان کے سربراہ ہیں، نے پولیس کو بتایا کہ وہ قتل کے وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ رات 10 بجے کے قریب کھانا کھا کر اپنی شادی شدہ بیٹی ثمینہ کو اس کے گھر چھوڑنے گئے تھے۔ واپسی پر جب وہ رات 3 بجے گھر پہنچے تو دروازہ بند پایا۔
فاروق نے دروازہ کھولنے کے بعد دیکھا کہ ان کی بیٹی مدیحہ خون میں لت پت کمرے میں پڑی تھی۔ انہوں نے فوراً اپنے بیٹے سمیر کو فون کیا، جو گھر پہنچ کر دیگر کمروں میں گیا اور عائشہ، شمشاد اور علینہ کی لاشیں ملیں۔ پولیس کو اطلاع دینے پر فورنسک ٹیم بھی موقع پر پہنچ گئی۔
پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کرنے کے بعد بلال کو مشتبہ قرار دیا اور اس سے پوچھ گچھ شروع کی۔ بلال نے ابتدائی طور پر انکار کیا، لیکن جب پولیس نے اس کے ہاتھوں پر موجود زخموں کی نشاندہی کی اور دیگر شواہد پیش کیے، تو وہ اپنا جرم قبول کرنے پر مجبور ہو گیا۔
پولیس نے بلال کے قبضے سے قتل میں استعمال ہونے والا چاقو، خون آلود دستانے اور دیگر شواہد برآمد کیے ہیں۔ تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بلال نے اپنی بہنوں کو الگ الگ کمروں میں قتل کیا اور اس دوران اس نے کوئی مزاحمت برداشت نہیں کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے دوران مقتولین نے اپنی جان بچانے کی کوشش کی، جس کے نشانات ان کے جسموں پر پائے گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق مقتولہ عائشہ، جو بلال کی بھابھی تھیں، نے قتل سے پہلے اپنی تین ماہ کی بیٹی کو بچانے کی کوشش کی اور اسے بیڈ کے نیچے چھپا دیا تھا۔ جب پولیس موقع پر پہنچی تو بچی زندہ حالت میں بیڈ کے نیچے پائی گئی۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک دردناک لمحہ تھا جب بچی کو ماں کے بغیر زندہ پایا گیا، جس نے آخری لمحات میں اپنی بچی کی حفاظت کی کوشش کی تھی۔
کراچی پولیس کے سینئر افسر ایس ایس پی عارف عزیز نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ بلال کے خلاف کیس مضبوط ہے اور تمام شواہد اسے قاتل ثابت کرتے ہیں۔ پولیس کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد بلال کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، اور اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ایس ایس پی عارف نے مزید بتایا کہ پولیس اس کیس میں کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتی تھی اور تمام ثبوت اور شواہد جمع کرنے کے بعد ہی بلال کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور متاثرہ خاندان کو انصاف ملے گا۔
کراچی کے شہری اس دل دہلا دینے والے واقعے پر شدید غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے مقتولین کے خاندان کے لیے دعاؤں اور ہمدردی کے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں، جبکہ قاتل کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس واقعے نے ملک بھر میں خاندانوں کے درمیان تنازعات اور ان کے نتائج پر ایک بحث چھیڑ دی ہے، اور ماہرین نفسیات بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایسے تنازعات کو بروقت حل کرنا ضروری ہے تاکہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
کراچی میں پیش آنے والا یہ ہولناک قتل کا واقعہ ایک خاندان کی تباہی اور ایک بیٹے کی نفسیاتی کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کیس نے معاشرتی مسائل جیسے جائیداد کے تنازعات، خاندانی تعلقات میں دراڑ اور ذہنی صحت کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ پولیس کی جانب سے تیز رفتار تفتیش اور قانونی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے، اور بلال کو عدالت میں جلد پیش کیا جائے گا۔

شہر کے لوگ اب اس بات کے منتظر ہیں کہ مقتولین کے لیے انصاف فراہم کیا جائے اور اس کیس کے ذریعے معاشرتی مسائل پر بیداری پیدا ہو تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کو روکا جا سکے۔