پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک اگر کوئی ایسا سیاسی اور حکمراں خاندان ہے جس نے قربانیوں کی لازوال مثالیں قائم کیں ، بہادر لیڈر شپ کا درجہ پایا اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے پل کا کردار ادا کیا ہے تو بلاشبہ یہ بھٹو خاندان ہی ہے۔ سب سے پہلے بانی و قائدچیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کا نام آتا ہے جنھیں آمریت اور جوڈیشل کلنگ کے ذریعے پھانسی دے کر ملک میں بدترین روایت کو جنم دیا گیا ۔
پھر ان کی صاحبزادی اور جانشین، تاحیات چیئرپرسن پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو سب کو مات دے دی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، وہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئیں‘ پھر بم دھماکے اور ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کلنگ 170 افراد کی شہادتوں کا بار‘ سیکڑوں زخمیوں کی تکلیف نہ صرف محسوس کی بلکہ اس بہادر لیڈر نے اگلے دن جان کی پرواہ کیے بغیر اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کرکے سب کو حیران کردیا۔ 18 اکتوبر2007 سانحہ کار ساز اب تک کی سب سے بڑی دہشت گردی ہے جس میں 170 افراد کو، جن کی اکثریت کراچی والوں کی تھی، شہادت نصیب ہوئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کوئی عام شخصیت نہ تھیں۔ وہ قومی ہی نہیں بین الاقومی لیڈر تھیں۔ دنیا کے بڑے بڑے لیڈر‘ حکمراں‘ سیاست داں محترمہ بے نظیر بھٹوسے ملاقات کو اپنے لیے فخر سمجھتے تھے۔ دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں ان کے لیکچر سننے کے لیے لوگ ٹکٹ خریدتے تھے۔ حکومتی عہدہ نہ ہونے کے باوجود انھیں دنیا بھر میں سربراہان مملکت کا پروٹوکول ملتا تھا جو پاکستان کے لیے بھی اعزاز تھا۔ وہ ملک کی دو بار وزیراعظم رہیں۔ ان کی ملک کے لیے خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ عام پارٹی کارکنوں اور لوگوں سے ایک بہن اور ماں کی طرح شفقت کرتی تھیں۔
ان کے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا نام بے نظیر رکھا، انھوں نے قدم قدم پر اپنے والد کے رکھے نام کو درست ثابت کیا، وہ واقعی بے نظیر تھیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ انھیں بے نظیرہی لکھا جاتا رہے گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دو مرتبہ اقتدار میں رہنے کے بعد آٹھ سالہ جلا وطنی کاٹی اور میثاق جمہوریت جیسا تاریخی معاہدہ بھی تمام سیاسی جماعتوں سے کرا کے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ پاکستان روانہ ہونے سے ایک روز قبل انھوں نے 17 اکتوبر کو دبئی میں اہم پریس کانفرنس کی جو تاریخ کا حصہ ہے۔
انھوں نے بین الاقوامی و قومی میڈیا کے سامنے جو کچھ کہا، چند اہم باتیں قارئین کو یاد دلانا چاہتی ہوں۔ ’’انھوں نے کہا کہ مجھے اپنے عوام سے کیا ہوا وعدہ نبھانا ہے اور ہر حال میں جمعرات اٹھارہ اکتوبر کو اپنے عوام کے درمیان میں ہونا ہے۔ میری واپسی کسی مفاہمت کا نتیجہ نہیں، یہ میرا آزادانہ فیصلہ ہے۔ پاکستان کے قبائلی بھی میرا استقبال کریں گے۔ کوئی مسلمان خود کش حملہ نہیں کر سکتاکیونکہ اسلام اس کے خلاف ہے۔ میرا ایمان ہے کہ خدا اور عوام میرا تحفظ کریں گے۔ عوام میری جان اور پاکستان میرا ایمان ہے۔ صرف انتخابات ہی ملک کو بچا سکتے ہیں۔
اگر انتخابات غیر منصفانہ ہوئے تو پورے ملک میں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے۔ اگر ملک میں پرامن تبدیلی نہ ہو سکی تو گلی کوچوں میں جمہوریت کی جنگ لڑیں گے۔ میرے والداور بھائیوں کو شہید کر دیا گیا لیکن ہم ڈرنے والے نہیں۔ قوموں کی قیادت کے لیے زندگی وقف کرنی پڑتی ہے،میںنے بھی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ سانحہ کار ساز سے کافی پہلے امریکی ٹی وی چینل سی این این کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان میں اپنی سیکیورٹی کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں اور اس معاملے پر انھوں نے جنرل مشرف سے بھی بات کی ہے۔
وہ جنرل مشرف کو خط بھی لکھ چکی ہیں جس میں ان خفیہ عناصر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جو کسی بھی قسم کی ناگوار صورت حال کے ذمے دار ہوں گے۔ وہ چند مخصوص افراد ہیں جنھوں نے آمریت سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور وہ انتہا پسندی کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ میری واپسی سے خوفزدہ ہیں۔
18اکتوبر2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی کراچی ائرپورٹ پر آمد کے موقع پر ان کا جس قدر والہانہ استقبال کیا گیا اس کی مثال پاکستان بلکہ برصغیر اور ایشیاء کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 30 لاکھ افراد نے ان کا استقبال کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکے تاریخی استقبال کا جو ریکارڈ 10 اپریل 1986 کو ان کی لاہور آمد کے موقع پر قائم ہوا تھا، وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 18 اکتوبر 2007 کو کراچی آمد کے موقع پر خود بخود ٹوٹ گیا۔ جو شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے۔ محترمہ کا طیارہ کراچی کے قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترا ۔ سہ پہر پونے تین بجے محترمہ بے نظیر بھٹو خصوصی تیار کردہ ٹرک پر ایئرپورٹ لاؤنج سے باہر آئیں۔
کراچی ایئرپورٹ سے مزار قائداعظم تک اور ایئرپورٹ سے لے کر قائد آباد ‘ لانڈھی ‘ گلشن حدید تک لوگوں کا جم غفیر تھا، پوراکراچی امنڈ آیا تھا۔ استقبالی جلوس نے ایئرپورٹ سے کار ساز پل تک کا چند کلو میٹر کا فاصلہ ساڑھے نو گھنٹے میں طے کیا جب کہ دوسری جانب مزار قائد کے ساتھ پارک اور اطراف پیپلز سیکریٹریٹ تک کئی لاکھ افراد محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سننے کے لیے جمع تھے۔ کارساز کے قریب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے انتہائی نزدیک یکے بعد دیگرے دو زور دار دھماکے ہوئے۔ ہر طرف لاشیں اور انسانی اعضا بکھر گئے۔
ان دھماکوں میں پیپلز پارٹی کراچی کے صدر اور موجود صوبائی وزیر سعید غنی کے دو کزن بھی شہید ہوئے، دھماکے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوسری گاڑی سے بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ انھوںنے دھماکوں پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ دھماکوں کی ذمے دار خفیہ ایجنسیاں ہیں۔ بہادر بے نظیر بھٹو نے اگلے دن 19 اکتوبر 2007 کو چاروں صوبوں‘ آزاد کشمیر اور علاقہ جات سے آئے ہوئے پارٹی رہنماؤں و کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔
پھر بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کے ورثاء سے ملاقاتوں کے لیے روانہ ہو گئیں۔ انھوں نے سہ پہر پریس کانفرنس میں کہا کہ اس واقعہ میں تین افراد ملوث ہیں جن کے بارے میں صدر جنرل پرویز مشرف کو سولہ اکتوبر کو تحریر ی طور پر آ گاہ کیا گیا تھا تاہم ان افراد کے نام ابھی ظاہر نہیں کیے جا سکتے۔ مجھے اگر کبھی کوئی نقصان پہنچا تو ایف آئی آر نامزد افرادکے خلاف درج کرائی جائے۔ انھوں نے کہا کہ حملے کا الزام حکومت پر نہیں لگایا لیکن واقعہ کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے، واقعہ میں حکومت کے کچھ فریقین ملوث ہیں۔ یہ زمین مسلح دہشت گردوں کی نہیں بلکہ محنت کشوں، خواتین، جمہوریت پسند قوتوں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صنعت کاروں کی سرزمین ہے۔ مجھ پر حملہ ان سب پر حملہ ہے، تمام سیاسی جماعتوں پر حملہ ہے، چاہے وہ اے آر ڈی میں شامل ہیں یا نہیں۔
ہم دہشت گردوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے بلکہ انھیں للکاریں گے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے وہ عناصر راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں جو آمریت کے حامی، سیاسی عدم استحکام، اقتصادی پسماندگی اور معاشرے میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں اور منشیات جیسی لعنت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ایک فرانسیسی جریدے سے محترمہ نے کہا تھاکہ انھیں اس حوالے سے کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیاء کی باقیات اس حملے میں ملوث ہیں۔ یہی لوگ ان کی واپسی اور جمہوریت کی بحالی کی کوششوں کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔ امریکا کے ایک معروف ادارے ورلڈ پبلک اومپیشن (WPO) کے ایک سروے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی مقبول ترین لیڈر قرار دیا گیا۔
18 اکتوبر 2007 کے واقعات کے بعد بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ حادثہ کے کچھ دنوں بعد گڑھی خدا بخش گئیں اور والد کے مزار پر حاضری کے بعد وہاں بیٹھ کر قرآن مجید پڑھتی رہیں اور وہاں پر اعلیٰ قیادت کو کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو مجھے یہاں دفنایا جائے جہاں میں تلاوت کر رہی تھی۔ محترمہ نے جمہوریت کے لیے نہ صرف میثاق جمہوریت معاہدہ کیا بلکہ جمہوریت کی بقاء اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے درمیان رہ کر ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کا ذہن بھی بنا لیا تھا۔
چند ہی لوگوں کو یہ بات بھی آشکار تھی کہ انھوں نے وصیت تک بنوا لی تھی لیکن وہ دہشت گردوں، استبدادی قوتوں اور ملک میں جمہوریت اور سیاست کی بحالی کے لیے سر پر کفن باندھ چکی تھیں۔ 18 اکتوبر کی شہادتوں میں بڑی تعداد کراچی میں رہنے والوں کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے ان گھرانوں کا اس طرح خیال رکھا کہ وہ تمام گھرانے آج پیپلزپارٹی کا حصہ ہیں اور ان کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔