جب جب پاکستان میں تخلیق کاری کی بات ہوگی اس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام سب سے نمایاں ہوگا خاص کر سائنس کی دنیا میں پاکستان کو ایٹم بم جیسی کارآمد چیز سے نوازا اپنی بے جا صلاحیتوں سے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان، پاکستان کی سائنسی کمیونٹی کے ایک نمایاں شخصیت، اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام میں اہم کردار کے لیے مشہور ہیں۔ 1 اپریل 1936 کو بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1947 میں پاکستان کی تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ آپ نے اپنی تعلیم میٹریولوجی میں حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی، بعد ازاں وہ یورپ میں مزید تعلیم کے لیے گئے جہاں انہوں نے بیلجیم کی کیتھولک یونیورسٹی آف لیوون سے میٹریالرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ حاصل کی۔
ڈاکٹر خان کا کیریئر اس وقت اہم موڑ پر آیا جب وہ ڈچ کمپنی یورینکو میں شامل ہوئے، جہاں انہوں نے یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی پر کام کیا۔ اس تجربے نے پاکستان کی ایٹمی خواہشات کی بنیاد رکھی۔ 1976 میں، وہ پاکستان واپس آئے اور قاہرہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) قائم کی، جو ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کی بنیاد بنی۔
ڈاکٹر خان کی قیادت میں، پاکستان نے 28 مئی 1998 کو اپنے پہلے ایٹمی تجربات کیے، جس کے ذریعے وہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ساتواں ملک بن گیا۔ یہ کامیابی اکثر ان کی محنت اور عزم کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی کوششوں نے نہ صرف پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا بلکہ خطے کی سیکیورٹی کے ڈھانچے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
تاہم، ڈاکٹر خان کا کیریئر تنازعات سے بھی خالی نہیں رہا۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں، ان پر ایٹمی پھیلاؤ کے الزامات عائد ہوئے، جس میں کہا گیا کہ انہوں نے ایران، لیبیا، اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو ایٹمی راز فروخت کیے۔ 2004 میں، انہوں نے قومی ٹیلی ویژن پر آکر ان سرگرمیوں کا اعتراف کیا، جس کے نتیجے میں انہیں گھریلو حراست میں رکھا گیا اور ان کی شہرت پر زبردست داغ لگا۔ بعد میں حکومت نے انہیں معاف کر دیا، لیکن اس واقعے نے ایٹمی سیکیورٹی اور پھیلاؤ کے حوالے سے تشویش پیدا کی۔
ان تمام تنازعات کے باوجود، ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان میں ایک معزز شخصیت رہتے ہیں اور ان کے حامیوں کے درمیان انہیں “محسنِ پاکستان” کے لقب سے جانا جاتا ہے۔ ان کی ملک کی دفاعی صلاحیتوں میں شراکت کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہیں قومی فخر میں اضافہ کرنے کے لیے سراہا جاتا ہے۔
زندگی کے آخری سالوں میں، ڈاکٹر خان نے تعلیم اور صحت کے اقدامات پر توجہ دی، مختلف فاؤنڈیشنز قائم کیں جن کا مقصد ضرورت مندوں کی مدد کرنا تھا۔ انہوں نے عوام اور میڈیا کے ساتھ رابطے میں رہنا جاری رکھا، اکثر قومی اور بین الاقوامی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان 10 اکتوبر 2021 کو انتقال کر گئے، اور ایک پیچیدہ ورثے چھوڑ گئے۔ ان کا کردار پاکستان کے ایٹمی ترقی میں بہت سے لوگوں کے لیے فخر کا باعث ہے، بہت سے طالبعلموں کے لیے ڈاکٹر عبد القدیر انسپریشن ہیں، اور لوگ ان جیسا کچھ پاکستان کے لیے اور سائنس کی دنیا میں کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ ان کی متنازعہ سرگرمیاں احتساب اور سائنسی تلاش میں اخلاقی ذمہ داریوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہیں۔ ان کی زندگی اور کام آج بھی بحث و مباحثے کا موضوع ہیں، جو جدید دنیا میں سائنس، سیاست، اور قومی سلامتی کے درمیان پیچیدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔