امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے امریکی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ چین نہین بلکہ ایران امریکہ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدارتی امیدوار نے یہ بات ایران کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ بیلسٹک میزائل حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہی۔
گزشتہ رات سی بی ایس ٹیلیویژن نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس سے پوچھا گیا کہ وہ امریکہ کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر کس ملک کو دیکھتی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’ظاہر ہے ایران‘۔ کیونکہ ایران کے ہاتھوں پر امریکی خون ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ایران کبھی بھی جوہری طاقت بننے کی صلاحیت حاصل نہ کرے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ میری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔”
امریکی ویب سائٹ ’’پولیٹیکو‘‘ کے مطابق واشنگٹن میں قومی سلامتی اور سیاسی میدان کے کچھ لوگ کملا ہیرس کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کملا ہیرس کے تبصرے غزہ میں جاری جنگ کے پس منظر میں مشرق وسطیٰ کے امریکہ کی اولین ترجیحات میں شامل ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
قومی سلامتی کے تجزیہ کاروں کے مطابق چین کے پاس امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے زیادہ ترقی یافتہ معیشت اور فوج ہے، امریکہ میں سب سے بڑی جاسوسی کی کارروائیاں عوامی طور پر دستیاب معلومات کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی بحریہ امریکی بحریہ کی بڑی حریف ہے۔ اسی طرح چین کا ایٹمی ہتھیاروں کا تیزی سے پھیلتا ہوا پروگرام آنے والی دہائیوں میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ کملا ہیرس کا یہ دعویٰ بائیڈن، ہیرس انتظامیہ کی 2022 کی قومی سلامتی کی حکمت عملی سے بھی متصادم ہے جس میں چین کو امریکہ کا سب سے اہم جغرافیائی سیاسی چیلنج قرار دیا گیا ہے۔
اس حکمت عملی میں چین کا تذکرہ 50 سے زیادہ بار اور ایران کا صرف آٹھ بار ہوا تھا۔ یہ حکمت عملی 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں سے ایک سال پہلے بھی شائع ہوئی تھی۔
مشرق وسطیٰ کے ماہرین بھی اس اتفاق رائے سے متفق ہیں کہ ایران نہیں بلکہ چین واشنگٹن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔