کراچی پولیس آفس پر دھماکہ ایک ایسا سنگین حملہ ہوا جس نے پوری سندھ پولیس کو ہلا ڈالا۔ جس کے بعد پاکستانی سنیما کی تاریخ میں ایک ایسی فلم نے جنم لیا جس کے بعد پاکستانی فلمسازوں کو ایک نئی جدت اور تخلیق اور نئی سوچ ملی جس میں اس سوچ کو نمایاں دیکھا گیا کے حقیقی واقعات پر بنی فلمیں لوگوں کی توجہ مبزول کرواتی ہیں۔ اور اس حادثے سے جڑے لوگ اپنے اپنوں کی یادگار سمجھ کر اس کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حادثوں میں شہید ہونے والوں کی قربانی اس طرح رائیگاں نہیں جاتیں اور انکی قربانیوں کے بدلے کم از کم انہیں خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
پاکستانی سینما کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو 2023 میں سندھ پولیس پر ہونے والے حملے کے پس منظر میں بنی، اور اس کی کہانی نہ صرف ایک سانحے کا عکاس ہے بلکہ اس میں بہادری، قربانی اور انسانی عزم کی ایک شاندار تصویر پیش کی گئی ہے۔
فلم کی بنیاد ایک دل دہلا دینے والی حقیقت پر ہے جس نے پورے سندھ میں سوگ کا ماحول پیدا کیا۔ اس حملے میں تین قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہلاک اور کئی افراد زخمی ہوئے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس واقعے نے عوامی سطح پر بھی خوف و ہراس پیدا کر دیا۔ ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا کردار بھی اس واقعے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے، جو ایک بڑی کہانی کا حصہ بن جاتا ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
کو ظفر زیدی نے ہدایت کی ہے، اور اس کا مقصد صرف ایک واقعے کی عکاسی کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے چھپی کہانیوں کو بھی اجاگر کرنا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سیکیورٹی کی خامیاں کیسے سامنے آئیں اور کس طرح بہادری کی داستانیں زندہ رہیں۔ اس میں خودکش حملہ آوروں کے جدید طریقہ کار، پولیس اور فوج کی بہادری، اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی تحقیقات کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔
فلم کی ایک اہم خصوصیت اس کے انسانی پہلوؤں کی عکاسی ہے۔ ایک خاص منظر میں، ایک لڑکا اپنے والد کی موت کو فون پر دیکھتا ہے، جو ناظرین کے دلوں کو چھو لیتا ہے۔ یہ انسانی درد اور قربانی کی کہانی، لوگوں کو اپنی کہانیوں سے جڑنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور انہیں یاد دلاتی ہے کہ حقیقی زندگی میں ایسی مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
پاکستانی سینما میں ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ نہ صرف تفریحی مواد فراہم کرتی ہے بلکہ سیکیورٹی عملے اور ان کے خاندانوں کے مسائل کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ اس فلم کی کامیابی نے یہ ثابت کیا ہے کہ حقیقی واقعات پر مبنی کہانیاں عوام میں دلچسپی پیدا کرتی ہیں اور ان کے ذہنوں میں سوالات اٹھاتی ہیں۔
یہ فلم صرف ایک تفریح نہیں ہے؛ یہ ایک تحریک ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حقیقی زندگی کے تجربات کتنے اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ یہ بہادری، قربانی اور انسانی عزم کی کہانیوں کو ایک نئی شکل دیتی ہے، جو نہ صرف پاکستانی سینما کو ایک نئی سمت میں گامزن کرتی ہے بلکہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ہماری کہانیاں کبھی بھی غیر اہم نہیں ہوتیں۔
آنے والے وقتوں میں، ایسی ہی مزید کہانیاں ہمیں حقیقت کی عکاسی کرتی نظر آئیں گی، جو ہماری ثقافتی ورثے کا حصہ بنیں گی۔
“7th Hour in a Cantonment”
نے ایک نئی راہ ہموار کی ہے، اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ پاکستانی سینما مستقبل میں کن کہانیوں کو پیش کرے گا۔