اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اہم بیان جاری کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم اور متعلقہ اداروں کے شکر گزار ہیں، معیشت استحکام کے بعد ترقی کی جانب گامزن ہے، رواں ماہ آئی ایم ایف بورڈ اجلاس میں معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں کمی سے سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی سے عام آدمی کو ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے۔
پاکستان کیلیے قرض کی منظوری کا امکان
قبل ازیں، آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولی کوزیک نے نیوز کانفرنس نے بتایا تھا کہ ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 25 ستمبر کو ہوگا، اجلاس پاکستان کیلیے قرض پروگرام کی منظوری دے سکتا ہے۔
جولی کوزیک نے بتایا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات جولائی میں مکمل ہوگئے تھے، پاکستان کیلیے 7 ارب ڈالر کے نئے قرض پروگرام پر بات چیت ہوئی تھی۔
’آئی ایم ایف کا پروگرام خطرے میں پڑ سکتا ہے‘
آئی ایم ایف کی جانب سے قرض پروگرام کو بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر اس پروگرام کی شرائط پر عمل درآمد بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو کیسے پورا کر سکے گی؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں پچھلے دنوں سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مہتاب حیدر نے اپنا تجزیہ بیان کیا تھا۔
میزبان کی جانب سے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 12 ارب ڈالر قرض رول اوور کے ممکنات کے سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال دو بڑے ممالک امریکا اور چین کی سیاست میں پھنسی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرضہ رول اوور ہوجانا چاہیے، اور اگر رول اوور نہ ہوا تو معاملہ اس حد تک خراب ہے کہ ہم آئی ایم ایف کو قسط ادا نہیں کر سکیں گے۔
پاکستان کیلیے ضروری ہے کہ اس ماہ ستمبر میں قرضہ رول اوور ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری بھی آجائے وہ اس لیے کہ ایل او آئی (لیٹر آف انٹنٹ) پر دستخط ہونا ضروری ہیں اگر 10 ستمبر تک دستخط نہیں ہوتے تو پاکستان کا معاملہ آئی ایم ایف بورڈ تک نہیں جائے گا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جوڑ توڑ کرنے کی کوشش کی تو آئی ایم ایف کا پروگرام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔