ایمان کے میدانِ عمل میں جہاں ہردم قربانی اور حوصلے کی شمع روشن ورخشاں ہے وہیں چہلم امام حسین علیہ السلام کا دن امید اور استقامت کی کرن بن کرہمارے لئے طلوع ہوتا ہے۔ اسی یوم ِ سوگ پر مسلم دنیا پیغمبر اسلامﷺ کے نواسے امام حسین (ع) اور شہدائے کربلا کی یاد منانے کے لیے عاشورہ کے بعد یکجا ویکجان ہوتی ہے،اوراسی روزہر مومن صفت انسان کو ظلم و جبر کے خلاف غیر متزلزل موقف اختیار کرنے کی تحریک ملتی ہے۔
کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے جس عزم وہمت کے ساتھ تاریکی کی بدترین تاریخی قوتوں کا مقابلہ کیا،اس نے عدل و انصاف کے لئے سینہ سپر ہونے اور اور حق کی خاطر اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی ایسی طرح ڈال دی جو انسانی تاریخ میں ایک اہم ترین سنگ ِ میل بن گئی جس سے فیض اٹھا نا ہر قافلہ ء انسانی کے لئے لازم ٹھہرا۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد چہلم کا دن منایا جاتا ہے۔یہ دن اس غیر متزلزل وابستگی کا غماز ہے جب حق گو اور سچے لوگ تاریکی کی قوتوں کے خلاف کھڑے ہوکر تن من دھن کی قربانی پیش کردیتے ہیں۔اور دنیا ان کی یاددہانی کے سہارے ایقان وایمان کے تبرکات دامنِ دل میں سمیٹتی رہتی ہے۔دراصل حسینی تحریک میں چہلم امام حسین علیہ السلام کو ایک خاص مرتبہ ومقام حاصل ہے۔اور اس سلسلے میں ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کا قول مبارک ہے: ”امام حسین علیہ السلام سے محبت کا پہلا چشمہ چہلم کے دن جاری ہوا۔
اسی حوالے سے جابر بن عبداللہ انصاری اور عطیہ کا چہلم کے دن امام حسین علیہ السلام کی قبرِ مبارک کی زیارت کیلئے جانا اس عظیم بابرکت رسم کی شروعات تھی جواس وقت سے سفر کرتی ہوئی حسینی قافلے میں اس قدرمقبول ومامون ہوچکی ہے کہ روزِعاشورا کی یاد کو ہمیشگی عطاہونے میں اس کا کردار سو فیصد نظر آتا ہے۔ چہلم امام خود اپنی فطرت میں میں عاشورا کی سمت دوبارہ لوٹنے کی سعی مبارک ہے۔
روایت ہے کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی شام میں یزید کی قید سے رہائی پانے کے بعد چہلم کے دن ہی کربلا میں تشریف آوری ہوئی تھی۔ آپ کی تواضع کے لئے بتاتے چلیں کہ روایات کے مطابق زیارت اربعین مومن کی علامات میں سے ایک علامت قرار دی گئی ہے۔اور اس کا سبب یقینااس نکتے کی ترجمانی اوریاددہانی ہے کہ مومن کو چاہئے کہ وہ کربلا کو اپنی زندگی کا راستہ سمجھے اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی محور کے گردمرتب و منظم کرے۔ سمجھنا چاہیے کہ ایمانی معاشرہ بھی کربلا کے آفتاب ِبے مثال کے مانندلطف وکرمِ مولا اور شہادت ِ امام کی لازوال تجلیوں سے بہرہ مند ہوتا ہے اور چہلم درحقیقت اسی خورشیدِ لایزل تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ عراق میں تو چہلم سید الشہداء علیہ السلام پرزیارت کیلئے کربلا پیدل جانے کی رسم صدہا صدیوں سے جاری وساری ہے۔اور بے پناہ ظلم وجبر کے باوجود امام حسین علیہ السلام کے عاشق اور عقیدت مند خفیہ طور پر راتوں کو غیر معروف راستوں سے اس رسم لہورنگ کی ادائیگی کرتے رہے۔اب جبکہ رکاوٹیں ختم ہوچکی ہیں تو چہلم کی زیارت کیلئے پیدل قافلوں کا سلسلہ بھی خوب زور وشور سے آغاز ہوگیا ہے۔ اور اس کی جغرافیائی حدودبھی محدود نہیں رہیں۔
اب توتمام عالم سے محبین اہلبیت علیہم السلام چہلم کی زیارت کیلئے کربلا پیدل جانے کی غرض سے عراق کا سفراختیار کرتے ہیں۔یہاں تک کہ چہلم امام حسین علیہ السلام پر کربلا پیدل جانے کی روایت پر دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑی گرمجوشی اور عقیدت اور سرگرمی سے شرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ وطن ِ عزیزپاکستان میں چہلم کی تقریبات ملک کے اتحاد اور امام حسین (ع) کے اصولوں سے سچی لگن کی عکاس ہیں۔
خاص وعام تمام مومنین امام علیہ السلام کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شہر بہ شہر،قریہ بہ قریہ جلوسوں کی صورت میں یکجا ہوتے ہیں اور انصاف، ہمدردی اور راستبازی سے اپنی فطری وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں، اور مصیبت کے وقت اہل بیت اطہا ر کی عطاکردہ امید ومروت کے احساس کواپنا حقیقی ساز سامان گردانتے ہیں۔المختصرچہلم سید الشہداء علیہ السلام اہل ِجہان کی بیداری کی دلیل بن چکا ہے۔ وہی بیداری جومحمدﷺعربی کے اسلام کی عظیم اڑان کا پیش خیمہ ثابت ہو گی اورایک نہ ایک دن اسلام اور مسلمان طاغوتی قوتوں سے آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔