گزشہ روزپیر کو کراچی کے علاقے کارساز کے قریب خوفناک حادثے میں ملوث خاتون ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں موٹر سائیکل پر سواردو افرادجو کہ آپس میں باپ بیٹی تھے جاں بحق اور پانچ زخمی ہو گئے۔واقعے کے بعد پولیس اور رینجرز نے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا جس کی شناخت نتاشا کے نام سے ہوئی اور اسے تھانے لے جایا گیا۔ خاتون وی ایٹ پر سوار تھی۔
بتایا جاتاہے کہ خاتون کا تعلق ملک کے بڑ ے کاروباری گل احمد خاندان سے ہے۔حادثہ پاکستان میری ٹائم میوزیم کے قریب پیش آیا، جہاں نتاشا کی بے قابوگاڑی نے متعدد گاڑیوں کو روند ڈالا، جس کے نتیجے میں فوری طور پر ایک نوجوان خاتون اور ایک معمر شخص کی موت ہو گئی جوکہ آپس میں باپ بیٹی تھے۔ باقی زخمیوں کو ضروری طبی وقانونی کارروائیوں اور علاج کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) منتقل کیا گیا۔
پولیس نے جاں بحق ہونے والوں کی شناخت 26 سالہ آمنہ عارف اور 60 سالہ عمران عارف کے نام سے کی ہے۔مزید زخمیوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے انکشاف کیا کہ نتاشا کو حادثے میں سر پر چوٹ آئی، اور اس کی حالت کا اندازہ لگانے کے لئے بھی جے پی ایم سی میں سی ٹی اسکین کیا گیاہے۔ نتاشا کے ڈی اے اسکیم I کی رہائشی ہے اور کارساز کے قریب سروس روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے گاڑی پر قابو کھو بیٹھی جس کے نتیجے میں یہ المناک حادثہ پیش آیا۔
عینی شاہدین کے مطابق نتاشا نشے کی حالت میں تھی اور حادثہ کا سبب بھی نشہ ہی تھا،واقعہ کی اطلاع ملتے ہی اس کا شوہر تھانے پہنچ گیا۔اور اپنی پوری زور آزمائی شروع کردی کہ کسی طرح نتاشا کو اس معاملے سے مکھن سے بال کی طرح نکال لے۔دوسری جانب فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) مقتول کے بھائی امتیاز عارف نے بہادر آباد پولیس اسٹیشن میں درج کرائی ہے جس میں نتاشا کے خلاف مجرمانہ قتل اور لاپرواہی کے الزامات شامل ہیں۔
وائرل ویڈیو میں بھی دیکھا جاسکتاہے کہ نتاشا نے موٹرسائیکل کو پیچھے سے ٹکر ماری تھی جس سے یہ جان لیوا حادثہ پیش آیا۔ اس ہولناک تصادم میں ایک اور موٹر سائیکل سوار عبدالسلام بھی زخمی ہوا۔ پولیس کے مطابق، چونکہ نتاشا کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تھا، اس لیے مجرمانہ قتل کے الزامات کے ساتھ لاپرواہی اور تیز رفتار ڈرائیونگ کے اضافی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق نتاشا کو سزا اور قانون کی گرفت سے بچانے کے لئے تجوریوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں اورمین اسٹریم میڈیا تک بھی رسائی حاصل کرلی گئی ہے جہاں اس سانحے کے حوالے سے کوئی خبر بھی نشر نہیں کرنے دی جارہی ہے۔تاہم پولیس کئی زاویوں سے حادثے کی تحقیقات کر رہی ہے اور مزید وضاحت کے لیے کئی اور مقامات سے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔