Light
Dark

آئی پی پیز معاہدوں کی تفصیلات جلد ظاہر کیے جانے کا امکان

پاور ڈویژن نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں (آئی پی پیز) کے معاہدوں کی تفصیلات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے ساتھ شیئر کرنے پر رضامندی ظاہر کردی جس کا مقصد کمیٹی کو اس سلسلے میں مستقبل کے اقدامات پر اعتماد میں لینا ہے۔

بزنس ریکارڈر کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے نئے تعینات ہونے والے سیکرٹری پاور ڈاکٹر محمد فخر عالم عرفان نے کہا کہ پاور ڈویژن ایک خصوصی اجلاس میں کمیٹی کے ساتھ آئی پی پیز کی مکمل تفصیلات شیئر کرنے کے لیے تیار ہے۔

تاہم، انہوں نے دلیل دی کہ ابتدائی طور پر ان کے افسران کمیٹی کے ان ارکان کو بریف کریں گے جنہیں آئی پی پیز کا کچھ علم ہے اور بعد میں یہ معاملہ پوری کمیٹی کے سامنے عوامی طور پر یا ان کیمرہ رکھا جائے گا۔

ان کی تجویز کی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اس بنیاد پر مخالفت کی کہ یہ معاملہ چند ممبران کے سامنے نہیں بلکہ پوری کمیٹی کے سامنے رکھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام ممبران کے ذہنوں میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر چوہدری حکومتی ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے دھرنے کے دوران جماعت اسلامی (جے آئی) سے مذاکرات کیے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز عوام کا خون چوس رہے ہیں اور ان کے معاہدے کمیٹی کے سامنے رکھے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے جماعت اسلامی کو آگاہ کیا کہ وہ دیکھے گی کہ وہ آئی پی پیز کے حوالے سے کس حد تک جا سکتی ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے صارفین کو ٹیرف میں ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔

شیخ آفتاب ایم این اے کے جواب میں سیکرٹری پاور نے کہا کہ اس وقت مہنگے بلوں کی بنیادی وجہ ڈالر میں صلاحیت کی ادائیگی اور ڈسکوز کا نقصان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کی قیمتیں آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے بڑھائی گئی ہیں جو صارفین سے پوری لاگت کی وصولی چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے کی حد 2.310 ٹریلین روپے مقرر کی ہے جس سے حکومت تجاوز نہیں کر سکتی۔ ہم آئی ایم ایف سے بات کرتے ہیں لیکن وہ ہماری بات پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری تھا۔

ڈسکوز کی نجکاری پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری پاور نے کہا کہ حکومت بجلی کے کاروبار سے باہر نکلنا چاہتی ہے۔ پہلے مرحلے میں تین بہتر کارکردگی دکھانے والے ڈسکوز یعنی IESCO، FESCO اور GEPCO کو نجکاری کے لیے یا طویل مدتی انتظامی کنٹریکٹ پر منتخب کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تینوں ڈسکوز کی نجکاری سے حکومتی خزانے پر مالی بوجھ کم ہو جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ خسارے میں جانے والی کمپنیاں اپنے سسٹمز میں کچھ سرمایہ کاری کے بعد نجکاری کی جائیں گی۔

کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ پنجاب میں قائم ڈسکوز کو سالانہ 150 ارب روپے کا مالی نقصان ہو رہا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 500 ارب روپے کے نقصانات میں سے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (HESC) کا حصہ 205 ارب روپے ہے۔ حیسکو میں 318 فیڈرز 80 فیصد نقصان پر کام کر رہے ہیں اور سالانہ ریکوری 75 فیصد ہے۔