77
سال پہلے جو تقسیم کی جنگ پاکستان اور بھارت میں ہوئی اس کا آج تک کوئی ثانی نہیں دیکھا گیا۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی آزادی کے لئے جو جدوجہد اور کاوشیں کی گئی اس کا ثمر ہمیں پاکستان کی شکل میں ملا۔ تقسیم ہند سے دو ممالک کا جنم ہوا پاکستان اور بھارت۔ ان دو ملکوں نے کیا کچھ نہیں سہا اور دیکھا جس کے اثرات آج تک دیکھے جا رہے ہیں ان ممالک میں آزادی کی جو جنگ لڑی گئی وہ ناقابل فراموش ہے۔
آزادی پاکستان کی کچھ تاریخیں جو بہت اہمیت کی حامل ہیں ان میں 1805 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا جب تک کسی کو بھی سیلف گورننس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ تا ہم 1905 میں پہلی تقسیم بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کیا اور باقائدہ برطانیہ سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد سن 1906 میں مسلمانوں کے حقوق کے لئے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم لیگ کے رہنماؤں نے مسلماںوں کی آزادی کے لئے مہم کا آغاز کیا۔
فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی راج کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔
وہیں وائسرائے لنلتھگو نے اگست کی پیشکش کا اعلان کیا، جس میں ایک ایگزیکیٹو کونسل اور وارایڈوائزری کونسل میں بھارتی نمائندوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور سترہ اکتوبر کو کانگریس نے انگریز راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔
برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے بھارت میں سیاسی اور قانونی ڈیڈلاک دور کرنے کے لیے 11 مارچ1942 کو برطانوی پارلیمان میں اعلان کیا کہ انگلینڈ کے سوشلسٹ رہنما سر سٹیفرڈ کرپس کو جلد ہی نئی تجاویز کے ساتھ ہندوستان بھیجا جائے گا جو سیاسی مسائل کے حل کے لیے بھارتی رہنماؤں سے مشورے کریں گے۔بائیس اورتئیس مارچ 1942 کے درمیان سر کرپس دلی آئے۔ انھوں نے ہندوستانی رہنماؤں سے طویل مذاکرات کیے اور 30 مارچ کو کرپس تجاویز شائع ہوئیں۔
کرپس مشن کی تجاویز ہندوستانی نیشنلسٹس کو مطمئن کرنے میں ناکام رہیں۔ الگ الگ تنظیموں نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کی مخالفت کی اور کرپس تجاویز نامنظور کر دیں۔ 1942 میں گاندھی کی قیادت میں ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہوئی۔
گاندھی اورجناح نے ستمبر 1944 میں مسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبے پر بات چیت کی جو ناکام رہی۔ دونوں کے درمیان وجۂ اختلاف پاکستان کا مطالبہ تھا۔
محمد علی جناح کا زور مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک یعنی پاکستان کے مطالبے پر تھا جبکہ گاندھی صرف آزادی کی بات کرتے تھے۔ سنہ 1946 میں مسلم لیگ کی طرف سے کابینہ مشن سے خود کو الگ کر لینے اور راست اقدام کے مطالبے کے بعد ملک بھر میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان تشدد بھڑک اٹھا۔
تشدد کی پہلی لہر کلکتہ میں 16 سے 18 اگست کے درمیان شروع ہوئی۔ ’گریٹ کلکتہ کلنگز‘ کے نام سے یاد کیے جانے والے اس واقعے میں تقریباً چار ہزار لوگ مارے گئے، ہزاروں زخمی اور تقریباً ایک لاکھ بےگھر ہوئے۔ تشدد کی یہ لہر مشرقی بنگال کے ضلع نواکھلی اور بہار تک پھیل گئی جس میں تقریباً سات ہزارمسلمان مارے گئے۔
انتیس جنوری کومسلم لیگ نے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا مطالبہ كيا۔ فروری میں پنجاب میں فرقہ وارانہ تشدد شروع ہو گیا۔
برطانیہ کے وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلي نے اعلان کیا کہ برطانیہ جون 1948 تک بھارت چھوڑ دے گا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے کا عہدہ سنبھالیں گے۔ چوبیس مارچ کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے وائسرائے اور گورنرجنرل کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ پندرہ اپریل کوگاندھی اور جناح کی جانب سے تشدد کے واقعات سے پرہیز کرنے کے لیے اپیل سامنے آئی۔ دو جون کوماؤنٹ بیٹن نے بھارتی رہنماؤں سے تقسیم کے منصوبے پر بات کی اور تین جون کو نہرو،جناح اور سکھ کمیونٹی کے نمائندے بلدیو سنگھ نے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات میں اس منصوبے کے بارے میں معلومات دیں۔
چودہ اگست کو بھارت سے الگ ہو کر پاکستان بنا اور پاکستان نے اپنا پہلا یوم آزادی منایا۔
چودہ اگست کی رات بارہ بجے برطانیہ اور بھارت کے درمیان اقتدار کا تبادلہ ہوا تھا ور پندرہ اگست کو انڈیا نے اپنا پہلا یوم آزادی منایا۔ تقریباً سوا کروڑ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ ملک تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ تقریباً دس لاکھ لوگ تشدد میں مارے گئے جن میں مسلمان، ہندو، سکھ سبھی شامل تھے۔اس طرح مسلمانوں کو آزادی ملی اور پاکستان بنا۔
13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ نشر ہوا جس کے بول حفیظ جالندھری نے لکھے تھے جبکہ دُھن احمد غلام علی چاگلہ نے تیار کی تھی۔