دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم کی تقریر 11 اگست 1947 بلا مبالغہ ایک الہامی تقریر ہے۔جسے فہیم اور رموز سلطنت سے باخبر مدبر ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مدتوں اس کی تشریح کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہ تقریر ہمیشہ متفق علیہ امر رہا۔ قرارداد مقاصد کے محرک لیاقت علی خان مولانا عثمانی اور ڈاکٹر اشتیاق قریشی جیسے اسلام پسند ارکان دستوریہ کو بھی اس میں کوئی قابل ذکر بات نہیں ملی کیونکہ یہ مدبرین تقریر کے لفظ لفظ کی معنویت سے باخبر تھے۔ بہ نسبت اسلام کے اس میں کوئی متنازع فیہ بات نہیں ہے۔
2007 میں ایکاایکی مذہبی اقلیتوں نے رئیس المتنورین جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں مینار پاکستان کے پاس اس تقریر کی نسبت سے خوب جشن منایا۔ چند ٹکڑوں کی مدد سے قائد کو لبرل، سیکولر اور پاکستان کو لادین ریاست قرار دیا گیا۔ یہیں سے روشن خیال “مسلمانوں’ کو یہ تقریر بشکل بائبل یا بصورت گرنتھ کیا ملی کہ وہ اس سے رواداری کشید کرنے لگے، یہیں سے انہیں اقلیتوں کے حقوق ملنا شروع ہو گئے۔ ان کے خیال میں یہ تقریر پاکستان کو لادین ریاست ثابت کرنے کو کافی ہے۔ اسلام سے قائدا اعظم کا اظہار لا تعلقی بھی انہیں یہیں سے ملتا ہے۔
متن پر تو بعد میں بات ہوگی. لیکن پہلی غلط بیانی یہ کی گی ہے کہ تقریر لکھی ہوئی تھی. حالانکہ اصلاً یہ اظہار تشکر تھا ۔ اگر یہ لکھی ہوئی تھی تو اس کا مسودہ نیشنل ارکائیوز میں ہونا چاہیے۔ جہاں پہنچانے کے لیے ریاستی ریکارڈ چاہیے۔ چلیے یہ استدلال چھوڑیے، پہلی تقریر میں تو قائد ایوان ریاستی پالیسیاں بیان کرتا ہے جو اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ہوتی ہے۔ پالیسی تقریر کی دنیا منتظر ہوتی ہے، بالخصوص کہ جب مملکت نو زائیدہ ہو۔ یا للعجب! “لکھی” تقریر میں مالیات کا سرے سےذکر نہیں۔ قائد، خارجہ امور لکھنا بھول گئے۔ مغرب سے نوزائیدہ مملکت کے تعلقات، پاک سوویت اور مسلم و پڑوسی ممالک سے تعلقات جیسے اہم امور تقریر میں ملتے ہی نہیں۔ تعلیم, عدل و انصاف, سائنس ٹیکنالوجی, منصوبہ بندی اور نظام حکومت جیسے پالیسی امور قائد نے اپنے خطاب میں بیان ہی نہیں کیے۔ چنانچہ گزارش ہے کہ یہ تقریر ایک دفعہ ہی سہی، خود پڑھ تو لیجیے جس میں اظہار تشکر، چند بنیادی امور اور فسادات اور اقلیتی ذکر، رشوت اور اقربا پروری جیسی بدعنوانیوں سے گریز کی نصیحتیں ملتی ہیں۔
ابتدا ہی میں قائد نے واضح کیا کہ دستوریہ کے دو فرائض ہیں: دستور کی تیاری اور وفاق کے لیے مکمل اور ہمہ جہت مقتدر قانون ساز ادارے کا قیام۔ معلوم نہیں نیوزی لینڈ کے ناول نگار اور ریڈیائی افسانہ نویس ہیکٹر بولیتھو نے اپنی افسانوی افتاد طبع میں لتھڑی قائد کی سوانح عمری میں لکھا یا نہیں کہ: “لکھی ہوئی یہ تقریر قائد کی گھنٹوں کی ریاضت کا نچوڑ ہے”. شاید لکھا ہو۔ لیکن کیوں لکھا؟ قائد تو اس “ریاضت” کی تردید یوں کر رہے ہیں :
Dealing with our first function in this assembly, I cannot make any well considered pronouncement at this moment.
(اسمبلی میں اپنے پہلے کام [دستور سازی] کے حوالے سے میں یہاں کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں دے سکتا۔( اسمبلی مباحث ج 1, نمبر 2, صفحہ 18, پیر 11 اگست 1947)۔
یہاں قائد صراحتاً کہہ رہے ہیں کہ یہ میری کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں ہے۔ اب پاکستان ٹائمز 21 اگست 1947 کا صفحہ اول ملاحظہ کیجئے۔ گرد کی تہوں تلے سے یہ فوٹو اسٹیٹ میں نے خود کرائی۔ نہ ملے تو مجھے ای میل کر دیجئے، بھیج دوں گا۔ کالم کی اشاعت پر میں اسے فیس بک پر چڑھا دیتا ہوں۔ آپ اسے فیس بک سے بھی لے سکیں گے۔ لیکن ٹھہریے ! یہ واضح رہے کہ اس عہد میں خبر کی تصویر کئی دن بعد شائع ہوتی تھی. تقریر 11 اگست کی تصویر 21 اگست کے اخبارات میں شائع ہوئی. کوئی خفیہ ہاتھ تلاش نہ کیجیے، ان دنوں آلات فوٹوگرافی اور ذرائع رسل و رسائل عہد حاضر کی طرح ترقی یافتہ نہیں تھے, نہ اس زمانے میں اخبارات میں تصاویر کثرت سے چھپتی تھیں. اہمیت خبر کی ہوتی تھی۔ وہ عہد آج کی طرح گلیمرائیزڈ نہیں تھا۔
تقریر 11 اگست 1947 کی یہی حقیقی تصویر ہے۔ بعد میں لوگوں نے دیگر تصاویر اٹھا اٹھا کر انہیں 11 اگست سے منسوب کر دیا۔ انٹر نیٹ پر دیکھیے، ہر جھوٹے (بشمول ویکیپیڈیا) نے اپنی پسند کی، ایک دوسرے سے مختلف، تصویر کو 11 اگست سے منسوب کیا ہوا ہے۔ دیگر کو چھوڑیے، قومی اسمبلی کی سائیٹ دیکھیے جہاں کوئی اور تصویر 11 اگست والی بتائی گئی ہے۔ ان سب متعدد جھوٹوں کو جمع کر کے فیصلہ ان پر چھوڑ دیں کہ بتاؤ، ان میں سے اصل تصویر کون سی ہے (جو ایک بھی نہیں ہے)۔ اسی وجہ سے میرا عقیدہ ہے کہ چند سالوں کے اندر گوگل، ویکیپیڈیا اور ایسے دیگر اداروں پر دنیا کی کثیر آبادی تو یقیناً “ایمان” رکھے گی لیکن ہر باشعور شخص ان کو زیادہ اہمیت نہیں دے گا۔ وہ وقت لوٹنے والا ہے کہ جب محققین اصل مسودوں اور مطبوعہ مواد ہی پر انحصار کیا کریں گے۔
اس تصویر میں دیکھیے، تقریر کرتے وقت قائد اپنی عقابی نگاہیں سامنے کہیں جمائے ہوئے ہیں۔ تقریر لکھی ہوئی ہوتی تو نگاہیں مسودے پر ہوتیں۔ مسودہ کہاں ہے، اس کی کبھی کوئی وضاحت پڑھنے کو نہیں ملی۔ تو کیا قائد نے تقریر لکھ کر خوب رٹا لگایا ہوگا؟ یوں ہمیں قائد کو جھوٹا قرار دینا پڑے گا کیونکہ وہ اپنی اسی تقریر میں کہہ چکے ہیں: “(دستور جیسے اہم مسئلہ پر) میں کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں دے سکتا”۔ پس ہیکٹر بولیتھو ہو یا کوئی اور, اس تقریر کی یہ تشریح محققین کے پیمانے پر پوری نہیں اترتی۔
اسے تحریری تقریر قرار دینے سے قائد سے، معاف کیجئے، ایک احمقانہ حرکت منسوب ہوتی ہے۔ گویا انتخاب سے قبل انہیں پتا تھا کہ آج انہی کو قائد ایوان منتخب کیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے گھنٹوں بیٹھ کر تقریر لکھی۔ حالانکہ انتخاب کے بعد قائد ایوان کو اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا ہے۔ لہذا انتخاب سے قبل اور بعد محض رسمی تقریریں ہوتی ہیں۔ اور یہ تقریر بھی ایک رسمی تقریر ہی تھی۔ متن ملاحظہ کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ اب متن کیوں پڑھا جائے اور کون پڑھے؟ اعتماد کا ووٹ لیتے وقت قائد ایوان بلا شبہ کچھ لکھ کر لاتا ہے۔ لیکن ان فی البد یہہ الہامی الفاظ کو تحریری قرار دینے کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس پورے دن کے اسمبلی مباحث پڑھ لیجئے، سوائے رسمی پارلیمانی کارروائی اور ارکان دستوریہ کے رسمی خطابات کے اور کچھ نہیں ملتا۔
ان ابتدائی باتوں کے بعد اگلی دفعہ اس تقریر کا متنی جائزہ الہامی کلام کی روشنی میں لے کر یہ بتانے کی کوشش ہو گی کہ اس تقریر سے لا دینیت تلاش کرنا قائد پر بہتان ہے۔ فی الحقیقت اس تقریر کا ہر لفظ تعلیمات اسلامی میں ملفوف اور معطر ہے۔