کراچی کی احتساب عدالت میں پی ایس او میں غیرقانونی بھرتیوں کے ریفرنس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت تمام ملزمان بری ہوگئے جبکہ انہوں نے کہا کہ یہ کرپشن نہیں صرف مس یوز آف اتھارٹی کا کیس تھا، نیب کو ختم کردیں ورنہ یہ ملک نہیں چلے گا۔
نیب کورٹ کراچی میں منیجنگ ڈائریکٹر پی ایس او کی غیرقانونی تقرری کے ریفرنس کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے نیب حکام کی پی ایس او میں غیرقانی بھرتیوں کا ریفرنس واپس لینے کی درخواست منظور کر لی، احتساب عدالت نے ریفرنس چیئرمین نیب کو واپس بھیجنے کا حکم بھی دے دیا۔
شاہد خاقان عباسی کے علاوہ بری ہونے والوں میں سابق ایم ڈی پی ایس او شیخ عمران الحق، سابق سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا اور سابق ایم ڈی پی ایس او یعقوب ستار بھی شامل ہیں۔
نیب کو ختم کریں ورنہ ملک نہیں چلے گا، شاہد خاقان عباسی
بعدزاں احتساب عدالت کراچی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج ہمارے لیے خوشی کا دن ہونا چاہیئے، 4 سال 2 ماہ بعد نیب نے کہا ریفرنس واپس لیتے ہیں، جج صاحبہ نے اس کیس میں 4 ملزمان کو بری کردیا، اسی عدالت میں ایک اور صاحب 12 سال سے آرہے ہیں، ہمارا کیس 4 سال 2 ماہ چلا صرف ایک گواہ آیا جو نیب لے کر آیا، اس شخص نے ہمارے خلاف کوئی بات نہیں کی۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سندھ میں نیب کیس انڈر ٹرائل ہو تو ہائیکورٹ سے ضمانت لینا ہوتی ہے، یہ کرپشن کا کیس نہیں تھا صرف مس یوز آف اتھارٹی کا کیس تھا، سیاسی لوگوں پر مقدمات بنائے جاتے ہیں میں بھی یہ مقدمہ بھگتا رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ کے جج نے پوچھا ہیڈ لگانے کا اختیار کس کے پاس ہوتا ہے، جج صاحب نے فیصلے میں لکھا یہ کیس غلط ہے، اتنے سالوں میں ہمارے خلاف صرف ایک گواہ کو قلمبند کیا گیا، یہ ریفرنس کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ اختیارات کا غلط استعمال تھا، پہلے بھی عدالت یہ کہہ چکی ہے یہ ریفرنس غلط قائم کیا گیا تھا، 4 سالوں سے زیادہ عرصے تک یہ ریفرنس چلایا جاتا رہا ہے، یہ بھی مہربانی ہے ہمارے نظام کی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج بھی کامران مائیکل سے یہاں ملاقات ہوئی ان کے خلاف بھی اسی طرح کا ریفرنس ہے، جتنی جلدی نیب کو ختم کیا جائے اتنا بہتر ہوگا ملک کے لیے، نیب کو ختم کریں ورنہ ملک نہیں چلے گا، عدلیہ کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ کیس کی حقیقت عدالت میں سامنے آجاتی ہے، پولیٹیکل اینجئرنگ کے لئے اس طرح کے کیسز شروع کیے جاتے ہیں، پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر تمام معاملات کو دیکھنا ضروری ہے، ہم نے آگے کے معاملات کو بہتر کرنے کے لیے پروگرام شروع کیا ہے، جن ممالک کے نظام کو دیکھ کر مثالیں دی جاتی ہیں وہاں تین چار دنوں میں فیصلے ہو جاتے ہیں۔