آپ نے گزشتہ تین دہائیوں سے کسی ہوائی جہاز کے ہائی جیک ہونے کے بارے میں نہیں سناہوگا خاص طور پر نائن الیون کے بعد سے تو بالکل بھی نہیں۔لیکن اگر آپ کا تعلق پچاس کے پیٹے والی عمر سے ہے تو آپ یقینا ہائی جیکنگ کے نام اور کام سے خوب اچھی طرح واقف ہوں گے کیونکہ70 اور 80 کی دہائیوں میں ہائی جیکنگ کا بہت زیادہ غلغلہ تھا۔ اس وقت سیفٹی اینڈ سیکیورٹی کے لئے اتنے ترقی یافتہ ٹولز نہیں تھے۔ جناتی کام سرانجام دینے والے کمپیوٹر ز اور نگرانی کے آلات بھی نہیں تھے جو سیکنڈوں میں مسافروں کا پتہ لگاسکیں۔
نائن الیون نے دنیا کی ساخت بدل کر رکھ دی، ایئر لائن انڈسٹری میں ٹیکنالوجی کے انقلاب نے ہوائی جہاز کے سفر کو انتہائی محفوظ ومامون بنا دیا۔آج کی جہاز رانی میں کسی غیر متعلقہ فرد کے لئے کاک پٹ میں داخل ہونا ناممکنات میں سے ہے۔پائلٹس زیادہ تربیت یافتہ ہیں اور جب وہ پرواز پر ہوں تو ہتھیار لے جانے کے بھی مجاز ہیں۔ ہائی جیکنگ اب کوئی مسئلہ نہیں رہا جیسا کہ 70 اور 80 کی دہائیوں میں تھا۔
اگر چہ ہوائی جہازکی پہلی پرواز ہائی جیکنگ کی اولین تاریخ سے بیس سال کم عمر ہے یعنی سمجھ لیجئے پہلی بار رائٹ برادران نے17دسمبر 1903کی صبح ساڑھے دس بجے ریاست نارتھ کیرولائنا کے شمال کی جانب اڑان بھری تھی اوروِل رائٹ نے جہاز کو پائلٹ کیاتھا۔اس جہاز کامجموعی وزن تقریباً چھ سو پاؤنڈ تھا۔ ہوا سے بھاری طیارے کی پہلی پرواز نے بارہ سیکنڈ میں ایک سو بیس فٹ کا سفر طے کیاتھا۔جبکہ دوسری جانب طیارہ ہائی جیکنگ کا پہلا واقعہ 1931 میں پیرو میں پیش آیاتھا۔21 فروری 1931زمین پر ہوائی جہاز کی پہلی دستاویزی ہائی جیکنگ، جس کے تفصیلی اور قابل اعتماد ریکارڈز موجود ہیں، اسی تاریخ کو پیش آیا جب پین امریکن-گریس ایئر ویز کی ایک ایئر میل فلائٹ اریکیپا، پیرو میں اتری اور اسے مسلح گوریلوں نے گھیرے میں لے لیا۔ ایئر پورٹ ٹرمینل بند کردیا گیا۔
یہ ریکارڈ شدہ قصہ اس اسکائی باؤنڈ بغاوت کا آئینہ دار ہے جواس وقت دنیا بھر میں سوویت انقلاب کے لئے راہیں ہموار کررہاتھااور کامریڈ لینن کی روس میں مارکس ازم کی عملی صورت گری دنیا کو خواب ِ آزادی میں مسلسل مبتلاکئے ہوئے تھی۔عظیم لینن نے جس طرح کارل مارکس کے خیالات کو عظیم الشان مملکت روس میں روبہ عمل کیا تھا اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو شدید خوف کا شکار کردیا تھا کیونکہ روس سے انقلابی لٹریچر ہر ملک میں پہنچ رہا تھا اور عوام وخواص سب کو متاثر کررہاتھا۔آپ دنیا میں پیش آنے والے ہائی جیکنگ کے پہلے واقعے کو اسی دائرے میں دیکھ سکتے ہیں۔جب 1931میں جنوبی امریکہ کے ملک پیرومیں انقلابیوں کا بول بالا تھا اور وہ جگہ جگہ ظلم وجبر کی آگ کو بجھانے کے لئے حق و انصاف کے دیوزاد الاؤ روشن کررہے تھے۔محرومیاں ختم کرنے کے لئے محروم انسانوں کی بھینٹ بھی تو دی جاسکتی ہے، ظلم کی بیڑیاں توڑ دینے کے لئے پاؤں بھی تو ڑے جاسکتے ہیں کیونکہ سرخ انقلاب دنیا کے ہر انسان کے لئے ضروری ہے خواہ اس کے حصول کے لئے زندہ انسانوں کو مردہ نعشوں میں تبدیل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
یہ مارکس کا نظریہ نہیں تھا لیکن لینن کے بعد اسٹالن نے اسے اسی طرح برتا تھا۔اور پھر طیارہ سازی کی صنعت نئی نئی تولد ہوئی تھی۔کئی کمزوریاں تھیں بہت سی خامیوں سے فائدہ اٹھا یا جاسکتا تھا۔بس اسی نکتے کو محور مان کرجری اور بے خوف کیپٹن لیونسیو کی قیادت میں باغیوں نے پیرو کی فضاؤں میں اترنے والے پین امریکن-گریس ایئر ویزکے طیارے کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔طیارہ جوآزادی اور طاقت کی علامت تھا۔پیروکے ائرپورٹ پر اترتے ہی انقلابیوں کو ان کی منزل کی طرف لے جانے والااڑن کھٹولہ بن گیا۔
وہ بظاہر ظلم کا خاتمہ، عوام کے لیے مساوات اور آزادی کا نیا دورجیسے نعروں سے مزین تھے۔لیکن آزادی کے جیالے امید اور بغاوت کا پیغام دیتے دیتے وحشت ودہشت کی علامت بن چکے تھے۔طیارے کا اغواء مزاحمت کی ایک نئی شکل تھی جو دنیا کے سامنے آئی تھی۔دلوں پر خوف طاری ہونے لگے تھے۔طیارے کا سفر افسانوی سے بڑھ کر مایوسی اور خوف کا استعارہ بننے والا تھا۔ تاہم پیرو ائر پورٹ پر بائرن رکارڈز (USA) ایک فورڈ ٹرائی موٹر لیما کو یرغمال بنالینے کی پہلی کوشش جوپیرو کے انقلابیوں کی جانب سے کی گئی تھی ہمارے لئے آج بھی ایک یاد دہانی ہے کہ زندگی کا شعلہ وقت کے اندھیرے میں جلتا ضرور ہے خواہ اسے طاقت کے بل پر دباہی کیوں نہ دیا جائے۔
طیارے کو اسی برس 2 مارچ کو رہا کر دیا گیا۔یہ داستان ِکشمکش مشتمل ہے 10 دن کے تعطل پر جب باغیوں کی جانب سے طیارے کو کہیں بھی پرواز کرنے سے روک دیا گیا تھا۔اور جب اطلاع آئی کہ انقلاب کامیاب ہو گیا ہے اور اب اسے رہا کیا جا سکتا ہے تومتاثرین کے چہرے حقیقی حیرت ومسرت کے احسا س سے کھل اٹھے۔جو جس کیفیت میں تھا بے اختیار خداوند کا شکر بجالایا۔