Light
Dark

واٹر کارپوریشن کا نیا پنڈورا بکس کھلنے کا امکان

زیرزمین پانی کے لائسنس اور پانی چوری کی تحقیقات مکمل۔ آئندہ چند دن میں رپورٹ پیش ہونے کی تصدیق، اینٹی کرپشن ذرائع
کراچی(خصوصی رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں سب سوئل واٹر کے لائسنس اور پانی چوری پرتحقیقات کا عمل آئندہ چند دنوں تک مکمل ہونے کا امکان ہے، اگر تحقیقات کا دائرہ بڑھا تو تحقیقاتی عمل میں توسیع کی جائے گی۔ مبینہ طور پر اینٹی کرپشن حکام کا کہنا ہے کہ KWSC کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صلاح الدین احمد سمیت 30 سے زائد ادارے کے افسران شامل تفتش ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں حتمی رائے یا رپورٹ مرتب کی جائے گی۔ ذرائع کاکہنا کہ قائم مقام چیف ایگزیکٹو آفیسر اسداللہ خان کے اسٹاف افیسر موہین لال کو حساس ادارہ نے پیر کے روز حراست میں لیکر تفتش شروع کرنے سے ادارے میں ہلچل مچ گی ہے متعبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر تحقیقات کے دوران یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سب سوئل واٹر اور پانی کی چوری میں سنگین بے قاعدگی بے اور ضابطگیاں سامنے نظر آئی ہیں جن میں بعض افسران ملوث بھی ہیں تاہم صلاح الدین احمد پر الزام نہیں جبکہ ادارے کے افسران کے خلاف کارروائی نہ کرناان کی غلطی ہے جن کی وجہ سے کراچی میں پانی کا بحران ختم نہ ہوسکا اور شہری مستقل اذیت کا شکار ہیں۔ پانی کی لائنوں سے پانی کی چوری کا سلسلہ افسران کی ملی بھگت سے عرصہ دراز سے جاری ہے۔ سب سوئل واٹر اور پانی چوری کے دوران اربوں روپے بنائے گئے جبکہ سب سوئل واٹر ایکٹ کے تحت زیر زمین پانی نکالنے کی رجسٹریشن میں بڑ ے پیمانے پر خلاف ورزی سامنے آنے کے باوجود کسی کے خلاف کاروائی نہ ہوسکی اور نہ ہی اس واردات میں کسی کو ذمہ دار قراردیا گیا تھا۔ صلاح الدین احمد نے لائسنس کی منسوخی کے بعد سب سوئل واٹر کی کمپنیوں کے کروڑوں روپے سرمایہ کاری کے ساتھ اس میں کروڑوں روپے رشوت کمیشن وصول کرنے والے افسران کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی تھی۔حال ہی میں انچارج سب سوئل واٹر تابش رضا جن کی حساس اداروں کی تحویل سے 18 دن بعد واپسی ہوئی لیکن اس کے بعد ایک اور تحقیقاتی ادارہ ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے تاہم انہوں نے 24 گھنٹے بعد پوچھ گچھ کر کے رہا کردیا ہے۔ پیر کو تابش رضا اپنے دفتر تشریف لائے تھے لیکن ان سے دن بھر افسران دریافت کرتے رہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا اور کارپوریشن میں دن بھر مختلف چہ میگوئیاں جاری رہیں۔ صلاح الدین احمد کے واپس آنے اور ایک بار پھر چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر بحالی کے امکانات روشن ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے مزید افسران کے حراست میں لیئے جانے کی توقع ظاہر کردی گئی ہے۔ اینٹی کرپشن ایسٹ زون کے جانب سے انسپکٹر عباس علی لاڑک تحقیقات کررہے ہیں جبکہ چیئرمین تحقیقاتی کمیٹی و ڈائریکٹر امیتاز علی ابڑو کا کہنا ہے کہ یہ تحقیقات حساس نوعیت کے باعث میڈیا سے ابھی شیئر نہیں کرسکتے ہیں۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ لائسنس کے اجراء میں زمین کی ملکیت، کرایہ نامے کی دستاویزات بھی موجود نہیں تھی، ڈپٹی کمشنروں کی این او سی بھی نہیں تھی۔ سب سوئل کا سسٹم لگانے کا ماسٹر پلان، لے آوٹ پلان بھی موجود نہیں تھا۔ فنی طور پر کئی اداروں کے اجازت نامے بھی موجود نہ تھے۔ صنعتی زون میں ایسوسی ایشن سے اجازت نامہ بھی بعض درخواستوں کے ساتھ موجود نہ تھا۔ سب سوئل میں کام کرنے والے لائسنس کے تمام معاملات کو شفافیت کے بجائے چمک ہر دیئے گئے جس کی تصدیق اینٹی کرپشن حکام نے بھی کردی ہے۔ تحقیقات کے دوران سب سوئل واٹر پر بننے والی کمیٹی کے سربراہ چیف انجنیئر اویس ملک ان کے ساتھ دلاور جعفری،خالد فاروقی،عبید الرحمن اور سید حسن عباس شامل تھے ان تمام افسران کے بیان کی روشنی میں سپریٹنڈنٹ انجینئر غلام مصطفی، سپرٹنڈنٹ انجینئر محمد اسلم اعوان، سپریٹنڈنٹ انجینئر غلام محمد، سپریٹنڈنٹ انجینئر ساجد محسن قاضی،، سپریٹنڈنٹ انجینئر محمد عثمان، سپریٹنڈنٹ انجینئر انور علی میمن، سپریٹنڈنٹ انجینئر جاوید حسین بھٹو، سپریٹنڈنٹ انجینئر اقبال پلیجو، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر محم عارف ستار، ایگریکٹو انجنیئر امجد ادریس، اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر امداد حسین مگسی، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر سلیم رضا سومرو، ایگزیکٹو انجینئر محمد دین شیر، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر عدنان رشید، اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر محمد حسین، انسپکٹر محمد عامر تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے سب سوئل واٹر کے لائسنس میں سنگین بے ضابطگیوں اور پانی چوری پر چیف ایگزیکٹو آفیسر KWSC سید صلاح الدین احمد کو عہدے سے ہٹانے اور تحقیقات کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ اس دوران چیف آپریشن آفیسر اسد اللہ خان چیف ایگزیکٹو آفیسر KWSC کی اضافی ذمہ داری ایک بار پھر ادا کریں گے۔ اتوار کی تعطل کے دوران سیکریٹری سروسز غلام علی بھرانی کے دستخط سے No.SO1(SGA&CD)-3/10/ 2020 بتاریخ 5 جنوری 2025ء کو حکمنامہ جاری کیا گیا ہے۔ اسداللہ خان کو ادارے کی جانب سے فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے جبکہ ایک مشترکہ ٹیم ڈائریکٹر امتیاز علی ابڑو، ڈپٹی ڈائریکٹر صوفی الحکیم حفیظ چاچر، ڈپٹی ڈائریکٹر سید عارف حسین شاہ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد امین بھٹی اور انسپکٹر عباس علی لاڑک پر مشتمل شامل ہیں۔ تحقیقات کے دوران قانونی ماہرین اور بااثر حلقوں میں یہ بات بھی گشت کر رہی تھی کہ خط میں مجاز اتھارٹی کی منظوری سے تحقیقات اور افسر کو ہٹانے کا حکمنامہ جاری کیا گیا ہے۔ کارپوریشن بننے کے بعد بھی ادارے کے کسی افسر کو معطل یا کام کرنے سے روکنے کا حکمنامہ جاری کرسکتا ہے، کیااگر کسی نے شکایت کی ہے تو یہ تحریری ہے یا زبانی حکم نامے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے، یا سسٹم کی ہدایت پر صلاح الدین کو منظر سے ہٹایا گیا ہے یا طویل عرصے تک رخصت پر ہیں۔۔۔؟چیئرمین انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ذوالفقار علی شاہ کو تعینات کردیا ہے جو سب سوئل واٹر کے لائسنس کے اجراء کے ساتھ ساتھ کارپوریشن میں سب سوئل کے نام پر پانی کی چوری کے بارے میں کھوج لگائیں گے یہ انکوائری رپورٹ دو ہفتے کے اندر مجاز اتھارٹی کے سامنے پیش کی جائے گی۔ 57 لائسنس منسوخ کرنے کا باضابطہ حکم نامہ جاری کیا تھا اور کمیٹی کے سب سے بڑے اور اہم رکن ایگزیکٹو انجینئر محمد دلاور جعفری کو عہدے سے برطرف کرتے ہوئے ہیومن ریسورسز ڈپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ اینٹی تھیفٹ سیل کے انچارچ بھی تھے اور ان کی جگہ کارپوریشن کے سب سے متنازعہ اور پانی چوری، غیر قانونی ہائیڈرنٹ کے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود بغیر کسی تحقیقات کے بحال ہونے والے تابش رضا کو تعینات کردیا گیا تھا مبینہ طور پر سب سوئل واٹر میں کروڑ روپے کا گھناؤنا کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ کئی لائسنس حاصل کرنے والی کمپنیاں اربوں روپے کی مالک بن گئی ہیں، ان میں اکثریت کراچی کے پانی کی لائنوں سے پانی چوری کے جرم میں ملوث تھے۔ ایک بڑے آپریشن کے دوران 17 کمپنیوں کے لائسنس معطل کرکے ان کے خلاف پانی چوری کے 64 مقدمات درج ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ کارپوریشن کے ایکٹ پر اب تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ایکٹ کے تحت تھانے کا قیام، ٹریبونلز اور ججز کی تقرری جو سیشن جج کی سطع پر ہو گی۔ان کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ پانی اور سیوریج کے ماہرین کی تقرری کا معاملہ سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے۔ لائسنس بغیر کسی شرائط اور این او سی کے بھاری رشوت لیکر جاری کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے، جن میں 17 کمپنیاں پر پانی چوری کے الزامات میں مقدمات بھی درج ہوئے تھے۔ کارپوریشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 57 لائسنس سے تقریبا 50 کروڑ روپے صرف رشوت اور کمیشن کی مد میں بھتہ جمع ہوا تھاتحقیقات کے دوران کئی امور میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی سمیت انتظامی امور بھی نشانہ پر ہے، اور کارپوریشن کے چیف ایکزیکٹو آفیسر کو ہٹانے کا طریقہ کار بھی موضوع بحث رہا ہے۔ چند دنوں میں تحقیقات مکمل ہونے پر نیا پنڈورا بکس کھلنے کا مکان ہے۔