Light
Dark

نوبیل انعام پانے والے سائنسداں کا انتباہ

اے آئی جسمانی ہی نہیں، ذہنی صلاحیت میں بھی انسان کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے اور انسان کا حال یہ ہے کہ اس کو اپنے سے زیادہ طاقتور اور ہنرمند مخلوقات و مصنوعات پر قابو پانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) فطری ذہانت کی پیدا کی ہوئی ہے لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت جس تیزی سے اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ آئندہ مصنوعی ذہانت فطری ذہانت کی محتاج نہیں رہے گی۔ اس کی اہمیت اور ضرورت کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔ اعتراف شاید اس لئے کیا جا رہا ہے کہ دنیا کے سامنے اس کی افادیت آتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس سال کے نوبیل پرائز (کیمسٹری) کا پہلا حصہ ڈیوڈ بیکر کو دیا گیا ہے جنہوں نے ایک نئی طرح کا پروٹین بنایا تھا۔ ان کے ڈیزائن کئے ہوئے اسٹرکچر میں تبدیلی کرکے نئے قسم کا پروٹین حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پرائز (انعام) کا دوسرا حصہ ڈیمس ہسا بیس اور جان ایم جمپر کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔ انہوں نے ایک ایسا ’اے آئی ماڈل‘ تیار کیا ہے جس سے پروٹین کے کمپلیکس پروٹین کے اسٹرکچر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے ڈیوڈ بیکر نے دعویٰ کیا تھا کہ زندگی کی ابتدا جس اسپرم (انڈے) سے ہوتی ہے وہ سب پروٹین ہے۔ لندن میں گوگل ڈیپ گوگل ڈیپ مائنڈ میں کام کرنے والی ڈیمس ہسا بیس اور جان ایم جمپر نے اے آئی کا ایک ایسا ماڈل تیار کیا جس سے برسہا برس پرانے مسائل حل ہوگئے۔ ظاہر ہے ان تینوں سائنسدانوں نے جن میں ایک کا تعلق برطانیہ اور دو کا امریکہ سے ہے عام انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں اہم خدمات انجام دی ہیں ۔ ان ایجادات و خدمات کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جسم کے سبھی ردعمل اور جذبات کو پروٹین ہی کنٹرول کرتا ہے۔
۲۰۲۴ء کا فزکس (طبعیات و مادیات) کا نوبیل پرائز بھی ۹۱؍ سال کے امریکی سائنسداں جان ہوپ فیلڈ اور ۷۶؍ سال کے برٹش کنیڈین جیفری ہنٹن یعنی اس شخص کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے جو کنیڈا میں پیدا ہوئے تھے مگر اب برطانیہ میں مقیم ہیں ۔ یہ انعام اس لئے دیا گیا ہے کہ دونوں نے مشین لرننگ یعنی اے آئی کے شعبے میں اہم خدمات انجام دی ہیں ۔ ہمارے ملک میں جہاں ہزاروں خوبیاں ہیں ایک برائی یہ ہے کہ ۹۱؍ سال اور ۷۶؍ سال کے آدمیوں کو ’کھوسٹ‘ سمجھ کر پرانے اورکام نہ آسکنے والے سامان کے ساتھ باہر پھینک دیا جاتا ہے مگر مغرب جہاں بزرگوں کا، مشرق میں کئے جانے والے احترام کی طرح احترام نہیں کیا جاتا اور بیشتر کو معمر افراد کے لئے بنائے ہوئے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے بزرگوں کے تجربات سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ دو معمر شخصیات کو مشترکہ طور پر انعام دے کر مغرب نے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی ایجاد سے زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور یہ تبدیلی بہرحال بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہے لہٰذا یہ اکرام کے مستحق ہیں ۔
میڈیکل سائنس میں اے آئی کا استعمال انتہائی تیزی سے بڑھا ہے اور اس کے اچھے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اے آئی یا مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے مگر انعام کا فیصلہ کرنے والے بھی اس امکان سے لاعلم نہیں تھے۔ انہوں نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان دونوں سائنسدانوں کے سبب انسانیت کے ٹول باکس یعنی اس بکس میں جس میں اوزار رکھا جاتا ہے ایک نیا اوزار آگیا ہے مستقبل میں اس کے اچھے یا برے اثرات کا انحصار اس پر ہے کہ انسان انہیں کس حد تک اور کس شکل میں یا کس نیت اور مقصد سے استعمال میں لاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اس کے ذریعہ ایجاد کی ہوئی مشین یا اوزار بذات خود اچھا ہے نہ برا۔ اس کے اچھے یا برے ہونے کے انحصار خود انسان کی نیت، مقصد اور سوچ پر ہے۔ یہی بات دوسری ایجادات و مصنوعات کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ کے جن دو سائنسدانوں کو مشترکہ انعام دیا گیا ہے وہ یہی نہیں کہ الگ الگ خطوں سے تعلق رکھتے ہیں اور الگ الگ نوعیت کے کام کرتے ہیں بلکہ ان کی عمر میں بھی ۱۵؍ سال سے زائد کا فرق ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ مشین بھلے سوچ نہ سکے مگر انسانی ذہن اور قوت حافظہ کی نقل کرکے اس کو یاد رکھنے اور سیکھنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی لکھا جاچکا ہے اے آئی کے متعلق اندیشے بہت ہیں تو انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں میں سے ایک جیفری ہنٹس نے جس کو اے آئی کا بابا آدم کہا جاتا ہے اندیشے بھی ظاہر کئے ہیں ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ انگریزی میں ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’گاڈ مادر‘‘ کا تصور دینی باپ اور دینی ماں یا عرف عام میں سرپرست کا ہے مگر جرائم کی پشت پناہی کرنے والے کو بھی گاڈ فادر کہا جاتا ہے۔ بابا آدم کے ساتھ ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔

اندیشوں یا امکانی خطرات کا ایک پہلو سچ اور جھوٹ کی پہچان سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ ہنٹن نے کہا ہے کہ اے آئی کے نئے نئے اوزار کے بڑھتے استعمال کے سبب انٹرنیٹ پر جھوٹی یا مصنوعی تصویروں اور آڈیو ویڈیو کی ریل پیل ہے۔ کچھ ہی مدت بعد انٹرنیٹ پر ایسی ایسی اطلاعات فراہم کی جائیں گی کہ سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل ہوجائے گی۔ خطرات کا دوسرا پہلو خود انسان کی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اے آئی جسمانی ہی نہیں ، ذہنی صلاحیت میں بھی انسان کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے اور انسان کا حال یہ ہے کہ اس کو اپنے سے زیادہ طاقتور اور ہنرمند مخلوقات و مصنوعات پر قابو پانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ اے آئی کا مقصد ایک ایسا نظام تیار کرنا ہے جو انسانوں کی طرح سوچنے، کام کرنے، مسائل کو حل کرنے، خودکار نظام کے سہارے لاگت کو کم سے کم رکھنے مگر کام کو زیادہ سے زیادہ کرنے کو محیط ہو وہ بھی کم سے کم وقت میں ۔ اس کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے مگر زندگی کے ایسے کئی شعبے اب بھی ہیں جہاں اس کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی طے نہیں ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا استعمال ہو بھی سکے گا یا نہیں مگر یہ طے ہے کہ انسان کا بنایا ہوا نظام جو ابھی پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوا ہے بڑی تیزی سے خود انسان کا حریف اور مدمقابل بنتا جا رہا ہے۔ بات وہیں ٹھہرتی ہے کہ یہ وہی کام کرے گا اور ویسے ہی کام کرے گا جیسا انسان چاہے گا۔ مگر اس کا بھی امکان ہے کہ انسان اپنے ہی بنائے ہوئے نظام و مشین کے سامنے مجبور ہوجائے۔
اس کا اعتراف خود اس شخص نے بھی کیا ہے جو اے آئی کا سرپرست اور بابا آدم کہلاتا ہے۔ یہ تو ویسے ہی ہے جیسے عزم و ارادے کا مالک اپنی ہی قوت سے اپنی تباہی کا سامان کر لیتا ہے۔ اس سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ اندیشوں اور خطروں کی بنیاد پر ترقی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہا جائے مگر اس تباہی کو بھی ذہن میں رکھا جائے جو ترقی کا لبادہ اوڑھ کر سب کو لبھاتی اور راغب کرتی ہے۔