پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں ایک پنجاب گروپ آف کالجز کے ایک کیمپس میں رونما ہونے والا مبینہ ریپ واقعہ ایک بار پھر اس مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح ریاست اور معاشرے کے طاقتور حلقوں کی جانب سے ریپ جیسے سنگین الزام کے سامنے آنے کے بعد معاملے سے نمٹنے کے روایتی ہتھکنڈے سنجیدگی کی کیفیت کو بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
ابھی تک سامنے آنے والی اطلاعات اس قدر متضاد اور مبہم ہیں کہ کوئی بھی حقیقی معنوں میں اندازہ ہی نہیں لگا سکا کہ آیا ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں۔ ایک طرف ثبوت مٹائے جانے اور مبینہ متاثرہ طالبہ اور لواحقین کو خاموش کرائے جانے کے الزامات ہیں، تو دوسری طرف تمام تر تحقیقات کے بعد کسی ایسے متاثرہ شخص یا گواہ اور واقعے کے کسی نوعیت کے سراغ کی عدم موجودگی ظاہر کی جا رہی ہے۔
ایسی کیفیت میں جہاں جعلی خبریں پھیلاکر افراتفری اور انتشار جیسی کیفیت پیدا کرنے جیسی سوشل میڈیا کی دیوہیکل طاقت ظاہر ہوتی ہے، وہیں ریاست اور معاشرے کے طاقتور حلقوں کی جانب سے ماضی میں اس طرح کے واقعات کے بعد کئے جانے والے اقدامات کے باعث ایک عدم اعتماد کی فضاء کا عنصر بھی نمایاں ہوتا ہے۔
ابھی تک یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ احتجاج کرنے والے پنجاب بھر کے طلبہ کے پاس بھی ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، جس کی بنیاد پر وہ یہ ثابت کر سکیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض سوشل میڈیا کی فیک خبر سے ہی اتنا بڑا احتجاج پھیلا یا اس کے کچھ اور محرکات بھی ہیں؟
اگر صرف لاہور واقعے تک ہی محدود رہ کر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو سوشل میڈیا کی جعلی خبر سے زیادہ طلبہ کے کسی بھی مسئلے کو اجاگر کرنے، اظہار رائے اور احتجاج کے حق کو سلب کیے جانے کا اقدام سب سے نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔
طلبہ نے پنجاب کالجز کی مختلف شاخوں میں احتجاج کرنے، یا آواز اٹھانے کی کوشش کی تو کہیں کالج کے طلبہ کو کمروں کے اندر بند کر دیا گیا، کہیں سکیورٹی عملے نے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ احتجاج اور رد عمل کو روکنے کا یہ روایتی ہتھکنڈا ریاست سمیت ہر اس ادارے، کمیونٹی، جتھے یا فرد کا ہوتا ہے، جو کسی بھی نوعیت کی طاقت رکھتا ہو۔ پرتشدد رد عمل اور رکاوٹوں نے احتجاج کرنے کی کوشش کرنے والے طلبہ سمیت گھروں میں بیٹھے اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کو مشتعل کیا اور اس بات پر ان کا ایمان پختہ کیا کہ واقعی کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے، جس وجہ سے انہیں احتجاج سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
حکمران طبقے کے نمائندوں اور مذہبی رہنماؤں کی ریپ کیسز کے حوالے سے وضاحتیں اور متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے کی فکری آبیاری بھی معاشرے میں ایک عدم تحفظ کو جنم دیتی ہے۔ مثال کے طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کا تنگ کپڑوں کو ریپ کی وجہ قرار دینا، یا پھر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ’بے پردہ‘خاتون نیوز کاسٹر کو دیکھ کر ہلچل محسوس نہ ہونا بیماری قرار دیناجنسی تشدد کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ سوچ و فکر پھر معاشرے میں عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے اور اگر الزام غلط بھی ہو تب بھی بنا تحقیق اس کو درست تسلیم کرنے کا عنصر غالب آجاتا ہے، جو کہ درست عمل بھی نہیں ہے اور یہی سوچ و فکر اس کی واحد وجہ بھی نہیں ہے۔
ایک اور بڑا عنصر ماضی میں ریاست، حکمران طبقات اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے ریپ کیسز سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات ہیں۔ بہت زیادہ مثالوں میں جائے بغیر جنرل پرویز مشرف کا ریپ کو مغربی ملکوں میں پناہ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیے جانے کا الزام ہو، یا پھر بلوچستان میں ریپ الزام میں ملوث ایک طاقتور ملزم کو بچانے کی کوشش میں فوج کشی کی نوبت تک جانے والی کہانی ہو، ایسی مثالوں سے اس ملک کی 76سالہ تاریخ بھری پڑی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کا ویڈیو سکینڈل تو حال ہی میں سامنے آیا تھا۔ ہر جگہ ملزمان کو بچانے، معاملے کو دبانے، تحقیقات میں کمزوری دکھانے، یا سب سے بڑھ کر متاثرہ خاندان اور خاتون کو چپ کروانے جیسے اقدامات ہی غالب رہے ہیں۔ پنجاب گروپ آف کالجز کے مالک میاں عامر سمیت کئی دیگر تعلیمی اداروں کے نجی کاروباری گروپوں کے مالکان کے میڈیا انڈسٹری، حکومتی ایوانوں اور طاقت کے دیگر مراکز میں غلبے کے بعدحالیہ واقعے کی شفاف تحقیقات پر الزام لگتے ہی شکوک نمایاں ہونا کوئی انہونی نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں اگر شفاف تحقیقات کرنے کی بجائے احتجاج کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی جائے گی تو جو رد عمل پنجاب میں سامنے آرہا ہے، اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں بچ جاتا۔
کچھ واقعات کا حقیقی، اہم یا غیر اہم ہونا اتنی اہمیت نہیں رکھتا، جتنا ان کا کسی خاص وقت میں رونما ہونا اہم ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف مسائل اورسماجی گھٹن کے خلاف سطح کے نیچے ابلنے والا غم و غصہ کسی بھی واقعے یا حادثے کی صورت میں اپنا اجتماعی اظہارکر جاتا ہے۔ پنجاب میں طلبہ کے پرتشدد رد عمل میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ مسائل کے انبھار سے نبرد آزما طلباء و طالبات کے اندر اس نظام کے خلاف نفرت اور غصے کی ایک لہر موجود ہے، جسے اظہار کے لیے مبینہ ریپ کیس کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو احتجاج سے روکنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کی عملی نے عمل انگیز کا کردار ادا کیا ہے۔
اب بھی ریاست کی جانب سے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ایک مخصوص سرکاری ذہنیت کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ احتجاج کرتے طلبہ کوگرفتار کرنا، انہیں تشدد کا نشانہ بنانا، ریپ کیس کے حوالے سے مبینہ جعلی اطلاع یا ویڈیو وغیرہ پوسٹ کرنے والے کو تلاش کر کے سزا دینے جیسے اقدامات وہ اعتماد بحال نہیں کر سکیں گے کہ مستقبل میں اس طرح کا رد عمل نہ آئے۔ریپ سمیت اس طرح کے سنگین جرائم کی حساس نوعیت کا ادراک ریاستی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے۔
پیشہ وارانہ انداز میں اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لیے پورے پولیس ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر ریاستی اور مذہبی رہنماؤں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مقابلہ بازی اور اختیار و اقتدار میں برقرار رہنے کی دوڑ پر مبنی نفسیات کے حامل نظام نے پورے معاشرے کوبیمار اور تعفن زدہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جوں جوں ریاست کا بحران بڑھتا جا رہا ہے، سماجی اور معاشرتی مسائل مزید اذیت ناک اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں طلبہ کو تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی میں نمائندگی سمیت جمہوری اور سیاسی آزادیاں فراہم کرنا، تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طالبعلم تک رسائی آسان بنانا ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ تاہم یہ لڑائی طلبہ کو اپنے زور بازو پر ہی لڑنی ہوگی۔ پنجاب کالج کے مبینہ ریپ کیس سے متعلق حقائق تو شاید چند روز میں کھل کر سامنے آجائیں گے، تاہم پنجاب کے طلبہ نے مزاحمت کی جو ہلکی سی ایک شمع روشن کی ہے یہ طلبہ کے اندرطاقت اور یکجہتی کا وہ احساس ضرور پیدا کرے گی کہ اس نظام کوچیلنج بھی کیا جا سکتا ہے اور بدلا بھی جا سکتا ہے۔