بےنظیر بھٹو نے خودساختہ جلاوطنی کا ایک طویل دور گزارنے اور سابق صدر اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے این آر او کے بعد وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا تو پارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں نے جان کے خدشے کے پیش نظر انہیں وطن آنے سے روکنے کی کوشش کی مگر بےنظیر اپنے عوام میں جانے کے لیے بےتاب تھیں، وہ نہیں مانیں اور پاکستان واپس آنے کے فیصلے پر قائم رہیں۔ بےنظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو جب وطن پہنچیں تو ائیرپورٹ پر ان کا فقیدالمثال اور والہانہ استقبال کیا گیا۔ کارکنان اپنی قائد کی آمد اور استقبال کے حوالے سے خاصے پرجوش تھے۔ بےنظیر بھٹو رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ ٹرک پر سوار اپنی منزل کی جانب جارہی تھیں، کارکنوں میں جوش و خروش تھا اور عوام کے جم غفیر کی وجہ سے قافلہ بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ جب یہ قافلہ کارساز کے قریب پہنچا تو اچانک ایک دھماکا ہوا اور چند ہی منٹوں میں دوسرا اور پہلے سے زیادہ بڑا دھماکا ہوا۔ دونوں دھماکوں میں بےنظیر بھٹو تو محفوظ رہیں تاہم جانی نقصان بہت زیادہ ہوا اور تقریباً 136 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ سانحہ کارساز کو 17 برس بیت گئے، پی پی کے 150 کارکن شہید ہوئے سانحے کے بعد کئی لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی اور ان کے اعضاء کو یکجا کرکے گڑھی خدا بخش میں دفنا دیا گیا۔ ان نامعلوم شہداء کی شناخت ’شہدائے بھٹو‘ کے نام سے کی جاتی ہے۔ بعد میں حکومت سندھ نے سانحہ کارساز کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے حادثے کے مقام پر یادگار قائم کی جہاں ہر سال شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی تقریب ہوتی ہے۔ بےنظیر بھٹو 18 اکتوبر کو کراچی میں ہونے والے دھماکوں میں تو محفوظ رہیں مگر اجل ان کی تاک میں تھی اور بالآخر 27 دسمبر 2007ء کو عوامی لیڈر کو عوام سے ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے ایک اور جان لیوا حملے میں شہید کردیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون سیاسی رہنما تھیں جو ملک کی حکمران بنیں۔ بےنظیر جب پاکستان کی وزیراعظم بنیں تو اس وقت ان کی عمر محض 35 برس تھی اور یوں دنیا کی سب سے کم عمر سربراہِ مملکت ہونے کا اعزاز بھی ان کے نام رہا۔