Light
Dark

حکیم محمد سعید شہید۔ حقیقی آزادی کے معمار۔

حکیم محمد سعید شہید۔ حقیقی آزادی کے معمار۔
آج 17 اکتوبر ہے۔ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کو آج شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ شہر قائد تو کیا پورا پاکستان، پورا بر صغیر لرز کر رہ گیا تھا کہ یہ کون سفاک ہیں جو علم کو قتل کرتے ہیں۔ جو تدبر کی جان لیتے ہیں۔ جو ایک مسیحا کو اپنے مریضوں کے پاس جانے نہیں دیتے۔ یہ زمانہ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا تھا۔ ہم کتنے بد قسمت ہیں کہ ایک مثالی پاکستانی کو ’’ پاکستان سے محبت کرو‘‘ کی مہم سے روکنےکیلئے اپنے کرائے کے قاتل استعمال کرتے ہیں۔

میں پاکستان کا ہم عمر ہوں بلکہ سات سال بڑا۔ میں نے بہت سے درد مند پاکستانیوں کی قربت سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ پاکستان ایک خاکہ تھا جس میں ہمیں رنگ بھرنے تھے۔ ایک منصوبہ تھا جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔قائد اعظم کی بیماری کے باوجود ان کی شبانہ روز کی محنت کا ثمر تھا۔ جس کی مٹھاس اور غذائیت ہمیں آتی نسلوں تک پہنچانا تھی۔ چند ایک ہی ایسی سعید روحیں ہمیں نصیب ہوئیں۔ جن کے سامنے مبسوط لائحہ عمل تھا۔ جس پر انہوں نے درجہ بدرجہ کام کیا۔

حکیم محمد سعید ان ہی چند پاکستانیوں میں سے تھے۔ جنہوں نے پاکستان میں قدم دھرنے سے لے کر قدم اکھڑنے تک ہر سانس ہر قدم پاکستان میں ’قوت و اخوتِ عوام‘ کی طرف بڑھایا۔ سایۂ خدائے ذوالجلال میں تنہا نہیں کھڑے ہوئے لاکھوں نونہالوں کیلئے اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں ہمدرد نونہال اسمبلیاں منعقد کیں۔ انہیں پرائمری تعلیم کی اہمیت کا احساس تھا۔ وہ اسے ایک مضبوط، مستحکم ریاست کا نقطہ آغاز سمجھتے تھے۔ انہوں نے پہلے نو عمر پاکستانیوں کے ذہنوں میں پاکستان جانشین کیا۔ بچوں کی قوت ناطقہ اور قوت تحریر کو متحرک کیا۔ نوجوانوں، بزرگوں کیلئے ’’شام ہمدرد‘‘ کا اہتمام بھی ان تمام شہروں میں کیا۔ قائد اعظم کی قیادت میں ایک الگ وطن مل چکا تھا۔ اب مرحلہ تھا کہ تحریک پاکستان کا توسیعی عمل اپنی منزل تک پہنچایا جائے۔ وہ کوئی بھی اعلیٰ ترین سرکاری عہدہ حاصل کرسکتے تھے۔ پھر اس میں توسیع کے حصول کیلئے سرگرم ہوسکتے تھے۔ وہ بھی نادیدہ قوتوں کی شفقت کا لطف اٹھاسکتے تھے۔ لیکن انہیں احساس تھا کہ وہ جس مقصد کیلئے زمین پر اتارے گئے ہیں۔ اس کا حصول ان کی مستعار زندگی کا نصب العین ہے۔ اور بھی بہت سی شخصیتیں پاکستان کے مختلف صوبوں میں ایسی نظر آتی ہیں۔ جنہوں نے کسی نہ کسی شعبے میں ایسی بے لوث کوششیں کیں۔

کسی نے بڑا اسپتال قائم کیا۔، کسی نے ایک یونیورسٹی، کسی نے دینی مدرسے، کسی نے ٹیکسٹائل مل لگائی، کسی نے لڑکیوں کیلئے یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔

حکیم محمد سعید نے ریاست پاکستان کی تکمیل کیلئے ایک ہمہ گیر لائحہ عمل ترتیب دیا۔ صرف جسم کی حفاظت نہیں، ذہن کی آبیاری،پاکستانیت کی کاشت کی، گود سے گور تک ایک پاکستانی کا روڈ میپ کیا ہونا چاہئے۔ وہ ترتیب دیا۔ ’نونہال‘۔ (جریدہ بھی۔ دوا بھی) سے مدینۃ الحکمت تک ۔ صرف بیان، تقریر نہیں، عمل صرف عمل۔

حکیم محمد سعید واہگہ سے گوادر تک دلوں میں بستے ہیں ذہنوں میں گونجتے ہیں۔ سعدیہ راشد بھی محترم اور مکرم اسی لیے ہیں کہ وہ اس عظیم پاکستانی کی مشعل کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی ہستیوں کا خلا پُر تو نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان کی میراث سے روشنی تو نسل در نسل پہنچائی جاسکتی ہے۔ اب نکتہ آفرینی کا دَور ہے۔ حکیم محمد سعید جس ترتیب سے آگے بڑھ رہے تھے وہ ڈیجیٹل کی دنیا میں داخل ہورہے تھے۔ اب تربیت اور اجالا۔ نکتے(Digit) میں ہے۔ ہمدرد یونیورسٹی، اس منتشر قوم کو ڈیجیٹل علوم کے ذریعے آتے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت دے۔حکیم محمد سعید کی حکمت، فکر کا دائرہ ساری اسلامی دنیا تک پہنچنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب پاکستانیوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔