حکیم محمد سعید 9 جنوری 1920 کو پیدا ہوئے طب کی دنیا میں آپ کو بہت شہرت ملی آپ نے اپنی زندگی طب کے لیے وقف کر دی جس کے بعد آپ نے اپنی زندگی میں مڑ کر نہیں دیکھا آزادی سے پہلے سے ہی آپ کا دواخانہ شہرت حاصل کر چکا تھا اور آج تک ہمدرد کا نام اُونچا ہے طب کی دنیا میں لوگ آپ کو آج بھی اچھے الفاظوں کے ساتھ یاد کرتے ہیں آج کے دن آپ کی برسی پر خراج تحسین کے طور پر یہ بلاگ لکھا جا رہا ہے تا کہ حکیم سعید کی ملک کے لیے دی گئی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں
حکیم محمد سعید پاکستان کے طب، تعلیم، اور سماجی فلاح و بہبود کے میدان میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کی کہانی عزم، محنت، اور انسانیت کی خدمت کے جذبے کی عکاسی کرتی ہے، جو انہیں آج بھی یادگار بناتی ہے۔
حکیم محمد سعید دہلی میں ایک مہاجر خاندان میں پیدا ہوئے، جس کی روایات ہربل میڈیسن کے میدان میں کئی نسلوں سے چلی آ رہی تھیں۔ ان کے خاندان نے بھارت میں ہمدرد وقف لیبارٹریز قائم کیں، جو ان کی مستقبل کی کامیابی کی بنیاد بنی۔ 1947 میں پاکستان کی تقسیم کے بعد، سعید نے ہمدرد فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد مؤثر ہربل علاج فراہم کرنا اور مشرقی طب کے فوائد کو فروغ دینا تھا۔
حکیم سعید نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مشرقی طب کی ترویج میں گزارا۔ انہوں نے تقریباً 200 کتابیں تحریر کیں، جن میں طب، فلسفہ، اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ ان کی کوششوں نے ہمدرد برانڈ کو پاکستان میں ایک گھریلو نام بنا دیا، اور آج بھی ان کی ہربل مصنوعات کو سراہا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ انہوں نے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے، جہاں طلبہ کو تنقیدی سوچ اور عملی مہارتیں سکھائی جاتی تھیں۔ ان کا یقین تھا کہ تعلیم ہی ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے۔
حکیم سعید نے سندھ صوبے کے گورنر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ ان کی قیادت میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ 1981 میں، وہ عالمی ثقافتی کونسل کے بانی اراکین میں شامل ہوئے، جو ان کی بین الاقوامی ثقافتی اور تعلیمی خدمات کی عکاسی کرتا ہے۔
17 اکتوبر 1998
کو حکیم سعید کا قتل اس وقت ہوا جب وہ کراچی میں ایک طبی تجربے کے لیے جا رہے تھے۔ ان کی موت نے پورے ملک کو صدمے میں مبتلا کر دیا، اور اس کے بعد کئی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ ان کی وفات نے ایک دور کی انتہا کر دی، لیکن ان کی وراثت آج بھی زندہ ہے۔ حکیم سعید کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات ملے، جن میں 1983 میں کویت ایوارڈ برائے طب اسلامی اور 1966 میں ستارہ امتیاز شامل ہیں۔ ان کی وفات کے بعد 2002 میں انہیں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا، جو ان کی عظیم خدمات کا ثبوت ہے۔
آج، حکیم محمد سعید فاؤنڈیشن ان کے وژن کے مطابق کام کر رہی ہے، جہاں صحت کی خدمات، تعلیمی پروگرام، اور کمیونٹی کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کی محنت، دیانت داری، اور انسانیت کی خدمت کے اصول آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حکیم محمد سعید کی زندگی ایک مثالی کہانی ہے جو ہمیں علم، محبت، اور انسانیت کی خدمت کی اہمیت کو سمجھاتی ہے۔ ان کی خدمات کا دائرہ آج بھی متاثر کن ہے، اور ان کی وراثت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم سب کو اپنی کمیونٹی کی خدمت میں پیش پیش رہنا چاہیے۔ حکیم سعید کی کہانی ہمیں تحریک دیتی ہے کہ ہم بھی اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کریں۔ حکیم سعید پاکستان کا ایک نمایاں نام ہے جس نے ملک کا نام ہر پہلو پر روشن کرا اور پاکستان کو طب کی دنیا میں روشناس کرایا۔