Light
Dark

بچے ذہنی دباؤ کا شکار

ہمارے معاشرے میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کم عمری ہی میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر تم نے کیا بننا ہے، بلکہ گھر والے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔
اگر بچہ اس کام میں یا پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں، اسے ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے،اس پر ہر وقت پڑھائی لکھائی کا زور دیتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے پر بے جا امیدوں کا بوجھ نہ ڈالیں، اپنے بچے کے مستقبل کیلئے جو بھی طے کریں اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اس پر اڑ مت جائیں بلکہ اس میں گنجائش بھی رکھیں کیونکہ اس زور زبر دستی کا نقصان زیادہ اور فائدہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔
بچے کی عمر کے ابتدائی مراحل ہی اندازہ لگائیں کہ وہ آپ کی اُمیدوں کا بوجھ اٹھا بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس کیلئے تیار نہ ہو تو اس کی دلچسپی معلوم کیجئے ، کسی ماہر سے مشورہ کیجئے کہ آ پ کا بچہ کیا کرسکتا ہے اور اس کی کیا دلچسپی ہے؟

اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو بعد میں پچھتائیں گے اور افسوس کریں گے کیونکہ آپ کا بچہ امیدوں کے بوجھ تلے اتنا دب جائے گا کہ اس کی رات کی نیند بھی پوری نہ ہوسکے گی۔ نہ وہ سکون سے رہ نہیں نہ سو سکے گا اس کی صحت متاثر ہوگی۔
ماہرین کے مطابق بچہ ذہنی طور پر تھکا ہوا ہوگا تو جلدی سو جائے گا مگر کب تک ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا، باربار اس کی نیند کھلے گی۔ ان کے مقابلے میں جن خاندانوں میں رجحان اور دلچسپی دیکھ کر بچے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ان کے بچے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور خطے بھی نام روشن کرتے ہیں اور اکثر کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔

اکثر والدین اپنے بچوں سے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا تذکرہ بھی ان کے سامنے کرتے رہتے ہیں جس کے سبب بڑے ہوکر یہ بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق نوجوانوں میں ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ والدین کا بچوں سے بڑی بڑی توقعات رکھنا بھی ہے جسے بچہ پورا نہیں کر پاتا اور وہ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں حالیہ دہائیوں کے دوران نوجوانوں میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے خرابی صحت، بے چینی اور یہاں تک کہ خودکشی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
والدین کو اپنے بچوں کی صحت بخش غذا اور جسمانی صحت کی فکر تو رہتی ہی ہے، تاہم اب ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بچوں کی ذہنی صحت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے، اکثر والدین کے لیے یہ جاننا کہ بچوں کی ذہنی کیفیت کیا ہے اور انہیں کس طرح ذہنی طور پر مضبوط شخصیت کا مالک بنایا جائے، ایک مشکل طلب کام ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ کم عمری ہی میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر تم نے کیا بننا ہے، بلکہ گھر والے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔
اگر بچہ اس کام میں یا پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں، اسے ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے،اس پر ہر وقت پڑھائی لکھائی کا زور دیتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے پر بے جا امیدوں کا بوجھ نہ ڈالیں، اپنے بچے کے مستقبل کیلئے جو بھی طے کریں اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اس پر اڑ مت جائیں بلکہ اس میں گنجائش بھی رکھیں کیونکہ اس زور زبر دستی کا نقصان زیادہ اور فائدہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔
بچے کی عمر کے ابتدائی مراحل ہی اندازہ لگائیں کہ وہ آپ کی اُمیدوں کا بوجھ اٹھا بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس کیلئے تیار نہ ہو تو اس کی دلچسپی معلوم کیجئے ، کسی ماہر سے مشورہ کیجئے کہ آ پ کا بچہ کیا کرسکتا ہے اور اس کی کیا دلچسپی ہے؟

اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو بعد میں پچھتائیں گے اور افسوس کریں گے کیونکہ آپ کا بچہ امیدوں کے بوجھ تلے اتنا دب جائے گا کہ اس کی رات کی نیند بھی پوری نہ ہوسکے گی۔ نہ وہ سکون سے رہ نہیں نہ سو سکے گا اس کی صحت متاثر ہوگی۔
ماہرین کے مطابق بچہ ذہنی طور پر تھکا ہوا ہوگا تو جلدی سو جائے گا مگر کب تک ؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا، باربار اس کی نیند کھلے گی۔ ان کے مقابلے میں جن خاندانوں میں رجحان اور دلچسپی دیکھ کر بچے کے مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ان کے بچے خاندان کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور خطے بھی نام روشن کرتے ہیں اور اکثر کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔