جہیز ایک لعنت ہے یہ تو ہم سب نے سنا ہے لیکن کیا ہم نے اس لعنت کو کبھی ختم کرنے کی کوشش کی؟ کیا کبھی سوچا کے اس کے اثرات غریب خاندان پر کس طرح پڑ رہا ہے، لڑکیاں اپنے ماں باپ کی دہلیز پر بوڑھی ہورہی ہیں۔ جہیز دینا برصغیر کی روایت ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں لیکن کیا یہ روایت ہمارے مذہب سے بڑھ کرہے۔ کیا شادی اتنا بڑا مسئلہ ہے یا ہم نے بنا دیا ہے۔
جہیز ایک ایسا معاملہ ہے جو کئی ثقافتوں میں گہری جڑیں رکھتا ہے، لیکن اس کی کہانی صرف تحائف یا مالی امداد تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی رسم ہے جس میں دلہن کے خاندان کی جانب سے دلہے کے خاندان کو پیسے، جائیداد، یا قیمتی اشیاء دی جاتی ہیں۔ یہ روایت جہاں کچھ لوگوں کے لیے خوشی کی علامت ہے، وہیں یہ بہت سے مسائل بھی پیدا کرتی ہے، جیسے مالی دباؤ، گھریلو تشدد، اور سماجی عدم مساوات۔
جہیز کی ابتدائی تاریخ مختلف ثقافتوں میں مختلف طریقوں سے بیان کی جاتی ہے۔ روایتی طور پر یہ دلہن کی مدد کے لیے اہم تصور کیا جاتا تھا، مگر آج کے دور میں اس کا مطلب کافی بدل چکا ہے۔ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ جیسے علاقوں میں جہیز کی ضرورت کو ایک سماجی حیثیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دلہن کے خاندان پر زبردست مالی بوجھ آتا ہے۔
یہ بات حیران کن ہے کہ جہیز کے مطالبات کے نتیجے میں کئی خاندانوں کی معاشی حالت متاثر ہوتی ہے۔ دلہن کے والدین پر معاشی دباؤ بڑھتا ہے، جس کی کئی دلخراش کہانیاں اور اعداد و شمار موجود ہیں۔ بدقسمتی سے، جہیز کی رسم کبھی کبھار تشدد کا باعث بھی بنتی ہے، اور کئی دلہنیں اس کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ حقیقت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا واقعی اس رسم کی ضرورت ہے؟
لاکھوں لڑکیاں دلہن بننے کی خواہش لیے دنیا سے چلی جاتی ہیں کیوں کے اُن کے ماں باپ کے پاس انہیں دینے کے لیے لاکھوں کا جہیز نہیں ہوتا، اور اگر کوئی بھولا بھٹکا غریب ماں باپ کی بیٹی سے شادی کر بھی لے تو ساری زندگی جہیز نہ لانے کے طعنے سسرال والوں کی باتیں اُسے ذہنی مریض بنا دیتی ہیں کچھ تو خودکشی کرلیتی ہیں اور کچھ اسی دلدل میں گھٹتی رہتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل بھارت میں عائشہ نام کی لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ خودکشی سے قبل از وقت اس نے آخری پیغام اپنے ماں باپ اور لڑکیوں کے لیے ویڈیو میں دیا۔ 24 سالہ عائشہ اپنے سسرال والوں کے ظلم جہیز نہ لانے پر طعنے سن کر اتنا تنگ آچکی تھی اس حد تک کے اُس نے اپنی جان لے لی، ویڈیو میں اس نے اپنے ماں باپ سے کہا کے اب مجھ سے اور نہیں ہورہا اب بس! کیا یہ سوالیہ نشان نہیں ہے کے ایک نوجوان لڑکی اپنی زندگی سے تنگ آکر جان لے لے۔ ایسے ہی پتہ نہیں کتنی عائشہ ہیں جو مر چکی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے درجنوں کیسز موجود ہیں اور روز مرہ کی بنیاد پر درج ہوتے، جہاں اتنی خواتین کو آئے روز کبھی جلا کر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کچھ اور کر کے تشدد کرنا، طعنے تشنے اس سب میں ایک عورت صرف ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہے۔ ایک غریب ماں کی بیٹی اس لیے مر گئی کیوں کے ان کی جھونپڑی کے سامنے حویلی میں رہنے والی لڑکی کی شادی پر اس کے باپ نے ٹرک بھر کر جہیز دیا اور وہ اپنی ماں کی ٹرنک دیکھتی رہی جس میں چند پرانے جوڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا اس صدمے سے اسکی دماغی نس پھٹ گئی اور وہ جان سے چلی گئی
اس سب میں بہت سارے لوگ زمہ دار ہیں امیروں کا اس میں سب سے بڑا ہاتھ ہے اگر وہ چاہیں تو اس روایت کو ختم کر سکتے ہیں۔ وہ جہیز نہ دے کر ٹرینڈ چلا سکتے اور حکومت بھی اس پر پابندی لگا سکتی ہے اس طرح بہت سی بیٹیاں اپنے ماں باپ کے گھر بوڑھی نہیں ہونگی اور عزت سے اپنے ہمسفر کے ساتھ خوش رہیں گی بہت سے ماں باپ اس ٹینشن میں مریں گے نہیں کے وہ اپنی بیٹیوں کو کیسے رخصت کریں۔
اس سلسلے میں مختلف ممالک میں قوانین بھی نافذ کیے گئے ہیں، جو جہیز کے خلاف لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان قوانین کا مؤثر نفاذ ایک بڑا چیلنج ہے، اور اس کے اثرات اکثر کمزور ہوتے ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ جہیز کے خاتمے کے لیے کئی تحریکات اور غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں جہیز کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہی بڑھا رہی ہیں اور لوگوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں نے جہیز کے بغیر شادیاں کرنے کا عزم کیا ہے، جو ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔ ان کہانیوں میں طاقت ہے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم سب مل کر اس رسم کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
جہیز کی یہ روایت ایک طویل المدتی مسئلہ ہے، لیکن اس کے اثرات نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ آگاہی بڑھانے اور تبدیلی کی وکالت کرتے ہوئے، ہم ایک ایسا مستقبل تخلیق کر سکتے ہیں جہاں شادیاں خوشی کی علامت ہوں، نہ کہ مالی بوجھ کا سبب۔ ہمیں اس گفتگو کو جاری رکھنا ہوگا، متاثرین کی مدد کرنی ہوگی، اور شادیاں برابری اور احترام کی بنیاد پر منانی چاہئیں۔! آئیں، مل کر اس رسم کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور مقامی اقدامات میں شامل ہوں۔ آپ کے خیالات، تجربات، اور آوازیں اس تبدیلی کا حصہ بن سکتی ہیں۔