Light
Dark

اردوغان کی اقوامِ متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر خاموشی کے پیچھے وجہ کیا ہے؟

آج سے پانچ سال قبل جب 5 اگست 2019 کو انڈیا نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تو اس پر دنیا بھر سے ردعمل سامنے آیا تھا۔ چین اور ترکی جیسے ممالک نے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان 2019 سے ہر سال اقوام متحدہ کی سالانہ جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر آواز بلند کرتے رہے اور انڈیا پر تنقید کرتے آ رہے ہیں۔
مگر اس بار اردوغان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر کا نام تک نہیں لیا۔

اردوغان کا یہ اقدام بہت سے لوگوں کے لیے چونکا دینے والا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر پر اس لیے خاموش رہا کیونکہ وہ برکس گروپ میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

برکس گروپ میں برازیل، روس، انڈیا ، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں اور انڈیا اس گروپ کا بانی رکن ملک ہے۔

آج کل اس گروپ کی توسیع کی بات ہو رہی ہے اور کئی ممالک نے اس میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ترکی بھی شامل ہے۔

منگل کو اقوام متحدہ کی 79ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اردوغان نے کہا تھا کہ ہم برکس ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ’ہم اس سے دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے قریب آ سکیں گے۔‘

مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات اس سال جنوری میں برکس میں شامل ہوئے تھے۔ اگلے ماہ 22 سے 24 اکتوبر تک روس میں برکس کا سالانہ سربراہی اجلاس ہو رہا ہے اور توقع ہے کہ تمام رکن ممالک اس میں شرکت کریں گے۔

گذشتہ پانچ سالوں میں پاکستان کے علاوہ ترکی واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ لیکن اس بار پاکستان بھی ترکی کے اقدام سے حیران ہے۔

پاکستانی صحافی ماریانہ بابر نے ایکس پر لکھا کہ ’اردوغان نے اقوامِ متحدہ سے خطاب میں کشمیر کا ذکر نہ کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کیا ہے۔‘ وہ پوچھتی ہیں کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وزیر شیریں مزاری نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’یہ ہماری سفارت کاری کی ناکامی ہے۔ 2019 سے ترک صدر ہر سال یو این جی اے میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اٹھاتے تھے کیونکہ اس وقت کی حکومت پاکستان عالمی سطح پر فرنٹ فٹ پر تھی۔
’اب صورتحال سب کے سامنے ہے۔‘