کے پی او پر حملا پورے پاکستان اور خاص کر سندھ پولیس پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا کے کیا کوئی بھی آکر پولیس پر حملہ کر سکتا ہے؟ کیا ہماری پولیس اتنی کمزور ہو چکی ہے کے وہ نہ اپنی اورنہ ہی عوام کی حفاظت کر پا رہی ہے، اس میں ناکام ہو چکی ہے۔
جمعے کی سب 2023 کے ایک عام دن کی طرح ہی تھا مگر اسکا اختتام عام نہیں ہوا کے پی او پر حملہ، ہلاکتوں نے لوگوں پر گہرا ڈر، خوف و ہراس چھوڑا جس کے بعد انہوں نے یہ بھی دیکھا کے لوگوں نے پولیس کو کتنی داد سے نوازا۔ جس طرح پولیس نے اس حملے کا جواب دیا وہ ایک قابل تعریف عمل تھا، اس کے بعد یاور رضا چاولہ نے پولیس فورس کو خراج تحسین پیش کیا جس میں انہوں نے
“7th Hour in a Cantonment”
فلم بنائی اور پولیس کی اس قربانی کو ساری زندگی کے لیے یادگار بنا دیا۔
7th Hour in a Cantonment
فلم نے پاکستانی سنیما میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ یہ صرف ایک ایکشن فلم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک گہرے احساسات اور قربانیوں کی عکاسی کرتی ہے جو انسانی زندگی کے نازک لمحوں میں سامنے آتے ہیں۔ اس کا مقصد نہ صرف تفریح فراہم کرنا ہے، بلکہ ناظرین کو اس تلخ حقیقت سے بھی آگاہ کرنا ہے جس کا سامنا ہمارے معاشرے نے دہشت گردی کے نتیجے میں کیا ہے۔
فلم کے کچھ مناظر واقعی دل کو چھو لینے والے ہیں، خاص طور پر ایک ویڈیو کال کا منظر جہاں ایک والد اور بیٹا ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں۔ یہ لمحہ ان کی محبت اور تعلق کو اجاگر کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ زندگی کتنی نازک ہے۔ جب بیٹا اپنے والد کی المناک حالت کا مشاہدہ کرتا ہے، تو یہ منظر ناظرین کے دلوں کو چھو لیتا ہے۔ یہ احساس ناظرین کو دہشت گردی کے متاثرین کے دکھ کی شدت کو محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ظفر زیدی کی ہدایتکاری نے اس کہانی کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف کہانی کی روح کو زندہ رکھا، بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ہر منظر ایک گہرے پیغام کی حامل ہو۔ یہ فلم صرف ڈرامائی اثرات کے لیے نہیں بلکہ ایک طاقتور کہانی سنانے کے لیے بنائی گئی ہے، جو انسانی روح کی لچک کو اجاگر کرتی ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
میں انسانی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی جو اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر قوم کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔ یہ فلم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم کس طرح ان چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں اور کس طرح ہم اپنے پیاروں کے لیے مضبوط رہ سکتے ہیں۔
یہ فلم صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ ناظرین کو اپنے پیاروں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی قدر کرنے اور تشدد کے خلاف ایک آواز بننے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں موجود برائیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
فلم نہ صرف ایک حقیقی زندگی کے سانحے کی عکاسی کرتی ہے بلکہ اس کے ذریعے ہمیں ایک امید کی کرن بھی دکھاتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بہادری اور لچک ہمیشہ انسانیت کی خدمت کرتی رہے گی۔ اس کی جذباتی گہرائی اور اثرات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم سب کو کس طرح ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ فلم نہ صرف ایک یادگار تجربہ فراہم کرتی ہے، بلکہ یہ ہمیں ایک ایسا پیغام دیتی ہے جو ہماری زندگیوں میں اثرانداز ہو سکتا ہے۔
“7th Hour in a Cantonment”
واقعی ایک منفرد تخلیق ہے جو ناظرین کے دل میں اپنی جگہ بناتی ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں اس طرح کی فلمیں بننا نہایت ضروری ہیں۔ اس سے پاکستانی سینما دوبارہ سے زندہ ہو سکتا ہے۔ اور اس طرح کی حقیقت پر مبنی فلم اور فلمسازی انسانیت پر کتنا گہرا اثر ڈالتی ہے اس بات کو سمجھنا اور ان موضوع اور ہمارے ہیروز کو صف عام کرنا ضروری ہے تا کے اُنکی قربانیاں رائیگاں نہ جا سکے۔