سائبر کرائم، یا آن لائن جرائم، ان سرگرمیوں کو کہتے ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے کی جاتی ہیں اور جن کا مقصد کسی فرد یا ادارے کو نقصان پہنچانا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں، جہاں لوگ اپنی زندگی کے کئی پہلوؤں کو آن لائن منتقل کر چکے ہیں، سائبر کرائم کی اقسام میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
تحریری مواد کی چوری، جسے “پلاگیریزم” بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی دوسرے کے لکھے ہوئے مواد کو بغیر اجازت اپنے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ادبی دیانتداری کے خلاف ہے اور مختلف قانونی و اخلاقی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
تحریری مواد کی چوری ایک نا قابل معافی جرم ہے۔ بظاہر تو اسے اتنا سنگین نہیں مانا جاتا مگر اب جب سے سائبر کرائم اپنے کام میں متحرک ہوا ہے تو اس کے بعد سے مواد کی چوری کی پکڑ آسان ہو گئی ہے۔ کوئی بھی کسی بھی انسان کی محنت اور تخلیق کو اُٹھا کر اپنا نہیں کہلوا سکتا اور نہ اُسے بغیر کریڈٹ دیے استعمال کر سکتا ہے۔ اگر کسی کا کوئی بھی مواد استعمال کیا یا کسی کا مواد اُٹھا کر بغیر اُس کی اجازت کے اپنے پیج پر لگایا یا کہیں بھی استعمال کیا تو یہ مواد کی چوری ہے اور اس کی مکمل سزا ہے۔
ایک صاحب جو بڑی کثرت سے انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے تھے، ان سے کسی نے ایک دن پوچھا ’’آپ کا نام کیا ہے؟
انھوں نے ترنت جواب دیا ’’ابھی انٹرنیٹ پہ دیکھ کے بتاتا ہوں‘‘ ۔۔۔۔۔ کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے لیکن موجودہ حالات میں ہمارے پورے قومی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارا قومی مزاج کیا ہے؟ محنت، مشقت، عرق ریزی، لگن اور جستجو سے فرار، مطالعہ نہ کرنا، تجزیے سے دور بھاگنا، تحقیق نہ کرنا بلکہ دوسروں کے کام کو ’’چوری‘‘ کر کے اپنے نام سے فخریہ شائع کرانا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔ اسی کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔ جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنا۔ خواہ پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہو، کوئی تنقیدی مضمون ہو، علمی ادبی یا فلمی معلومات ہوں، انٹرنیٹ آپ کو ہر طرح کا پکا پکایا حلوہ فراہم کر دے گا۔۔۔۔۔ اور تو اور اب تو ’’نامی گرامی‘‘ تجزیہ نگار، کالم نویس اور صحافی سب اسی کے اسیر ہیں۔ بقول میر تقی میر
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
سب اسی زلف کے اسیر ہوئے
تحریری مواد کی چوری کے نتیجے میں کئی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ قانونی مسائل جنم لے سکتے ہیں، جیسے جرمانے یا دیگر سزائیں۔ اصل مصنف کو اس کا حق نہیں ملتا، جس سے اس کی محنت کی قدر میں کمی آتی ہے۔ تعلیمی ادارے یا کام کی جگہ پر آپ کی شہرت متاثر ہو سکتی ہے، اور یہ ادبی دیانتداری کے اصولوں کے خلاف ہے، جو کہ ایک مصنف کی حیثیت سے آپ کی اخلاقی ذمہ داریوں کو متاثر کرتا ہے۔
جو لوگ نہایت دیدہ دلیری سے انٹرنیٹ سے مواد چوری کر کے اپنے نام سے معمولی رد و بدل کر کے چھپوا دیتے ہیں، انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی چوری پکڑی بھی جاتی ہے اور وہ خوار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے سر پہ کسی سیاسی جماعت، یا کسی بھی ’’گاڈ فادر‘‘ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ انھیں ’’چمک دمک‘‘ کے کاروبار سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے کہ ان کی چوری پکڑ لی گئی ہے۔ ان کا مطمع نظر ہے ’’کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔
ایسی تحریریں خواہ وہ کالم ہوں یا دیگر اصناف صاف طور پر پہچان لی جاتی ہیں کہ اس ’’پردہ زنگاری‘‘ میں اصل چہرہ کس کا ہے؟ خاص طور پر جن تحریروں میں بہت سارے سن اور تاریخیں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ محنت تو کسی اور کی تھی۔ صرف ترجمہ کسی اور کا ہے۔ اگر میں کہوں کہ یہ اخلاقی چوری ہے تو غلط نہ ہو گا۔ انٹرنیٹ پہ دی گئی معلومات نے بے شک بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں لیکن یہ ایک عالمگیر چوری میں ممد و معاون بھی ہو رہا ہے۔ کمپیوٹر کے آنے سے پہلے طالب علم اور اساتذہ مختلف کتابوں سے مواد اخذ کر کے نوٹس بناتے تھے۔ ادیب اگر کوئی تحقیقی کام کرتا تھا اور کسی کے ادبی کام سے استفادہ کرتا تھا تو حوالہ دیا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ چلن ختم ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر آن کرو اور جو چاہو معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کر لو۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا حد سے زیادہ استعمال بہت جلد طالب علموں کے ہاتھوں سے قلم اور کاغذ چھین لے گا۔
تحریری مواد کی چوری ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جو نہ صرف قانونی مسائل بلکہ اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے آگاہی اور احتیاط ضروری ہے۔ آپ کی تخلیقی محنت کا احترام کرنا اور دوسروں کی محنت کی قدر کرنا ایک بہترین مصنف کی شناخت ہے۔
سائبر کرائم ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہر کسی کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے آگاہی اور احتیاط انتہائی اہم ہیں۔ اگر ہم احتیاط برتیں اور اپنی آن لائن سرگرمیوں میں محتاط رہیں، تو ہم اس خطرے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ہمارا بھی فرض ہے کے ہم کہیں سے بھی کسی بھی قسم کا مواد اُٹھائیں تو اس جگہ کو مکمل صلہ دیں تا کے ہم کسی بھی جرم کا حصہ بننے سے بچ جائیں اور سامنے والے کو بھی اُس کی محنت کا حاصل وصول ہو جائے۔