ماہر قانون منیر اے ملک نے کہا ہے کہ 26 اکتوبر کو سید منصور علی شاہ پاکستان کے آئینی چیف جسٹس ہوں گے، 25 اکتوبر تک فائز عیسیٰ چیف جسٹس ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ 25 اکتوبر تک قاضی فائز عیسیٰ میرے چیف جسٹس پاکستان ہیں، 26 اکتوبر کو سید منصور آئینی چیف جسٹس ہوں گے، سب کو پتا ہوتا ہے کہ جو سینئر جج ہے وہی چیف جسٹس پاکستان بنے گا۔
ماہر قانون نے کہا کہ سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس اس لیے ہونا چاہیے کہ کسی کی اجارہ داری نہ ہو، 1996 میں الجہاد کیس میں فیصلہ ہوگیا تھا کہ سینیارٹی پر چیف جسٹس ہوگا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ آئین کو زیرو نہیں کیا جاسکتا اسی طرح بنیادی اسٹرکچر بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا، ملک اسد علی کے کیس کے فیصلے کو اصول کے طور پر اٹھارویں ترمیم میں شامل کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو محدود طاقت میسر ہے، وہ عدالت کو ختم نہیں کرسکتی، آئین پارلیمان پارٹیوں کے درمیان معاہدہ نہیں ہوتا، آئین پاکستان کےعوام کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے۔
عوام کو اگر نہ پتا ہو کہ کس چیز سے باندھا جارہا ہے یہ تو پھر کوئی بات نہ ہوئی، پارلیمنٹ کو حق نہیں کہ مجھے یا کسی اور کو سزا دے یا مقدمہ چلائے۔
ماہر قانون منیر اے ملک کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کا یہ اختیار نہیں کہ قانون بنائے وہ صرف قانون کے مطابق فیصلہ کرسکتی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شام تک حکومت اور جے یو آئی میں آئینی ترامیم پر معاملات طےنہیں ہو سکے تھے جبکہ مولانا فضل الرحمان سے پی ٹی آئی نے رابطہ کیا ہے۔
مجوزہ آئینی ترامیم میں 20 سے زائد شقوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ آئین کی شقیں 51، 63، 175، 187 اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی مدت ملازمت نہیں بڑھائی جائے گی اور عہدے پر جج کا تقرر سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز کے پینل سے ہوگا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس پاکستان لگائے گی۔
اس میں مزید بتایا گیا کہ آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل آئینی عدالت میں سنی جائے گی، آئینی عدالت میں آرٹیکل 184، 185، 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوگی جبکہ آئین کے آرٹیکل 181 میں بھی تر میم کیے جانے کا امکان ہے۔
اس سے قبل حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کر دیے ہیں، فضل الرحمن آئینی ترمیم سے متعلق حکومت کا ساتھ دینگے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم ایک جامع پیکج ہے جس میں آئینی عدالت بنائی جائے گی، آئینی عدالت کے لیے ججز کی تقرری کا بھی طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد عام سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے،