Light
Dark

سانحہ بلدیہ فیکٹری: اسباق اور پاکستان میں حفاظتی اقدامات

11 ستمبر 2012 کو کراچی میں واقع بلدیہ فیکٹری میں پیش آنے والا المناک سانحہ پاکستان کی صنعتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جس میں 250 سے زائد معصوم افراد زندہ جل کر ہلاک ہوگئے۔ یہ واقعہ نہ صرف ملک میں حفاظتی نظام کی ناکامی کا مظہر تھا بلکہ اس نے صنعتی قوانین، مزدوروں کے حقوق اور فیکٹریوں میں حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی کو بھی عیاں کیا۔ اس سانحے کے بعد عوام، میڈیا اور سول سوسائٹی نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا اور صنعتوں میں حفاظتی اقدامات پر سوالات اٹھائے گئے۔

سانحہ سے سیکھے گئے اسباق

  1. حفاظتی قوانین کی خلاف ورزی:
    بلدیہ فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ فیکٹری میں ایمرجنسی راستے نہیں تھے اور حفاظتی آلات کی شدید کمی تھی۔ مزدوروں کے لئے نکلنے کے راستے بند تھے، جس کی وجہ سے زیادہ تر ہلاکتیں ہوئیں۔ اس سانحے نے ظاہر کیا کہ فیکٹری مالکان اور انتظامیہ مزدوروں کی حفاظت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے اور صنعتی قوانین کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔
    • معائنہ اور نگرانی کی کمی:
      پاکستان میں فیکٹریوں کی معائنہ اور نگرانی کے نظام میں بڑے پیمانے پر خامیاں ہیں۔ بلدیہ فیکٹری جیسے واقعات نے ثابت کیا کہ حکومت کی جانب سے حفاظتی قوانین پر عملدرآمد کرانے میں ناکامی موجود ہے۔ فیکٹریوں کا باقاعدہ معائنہ نہیں کیا جاتا، اور اکثر فیکٹری مالکان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
      • مزدوروں کے حقوق کی پامالی:
        بلدیہ فیکٹری کے واقعے نے مزدوروں کے حقوق کی پامالی کو بھی اجاگر کیا۔ مزدوروں کو حفاظتی تربیت یا ایمرجنسی سے نمٹنے کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، اور اکثر فیکٹری مالکان مزدوروں کے تحفظ کے حوالے سے بے پروا ہوتے ہیں۔

سانحہ کے بعد حفاظتی اقدامات اور بہتریاں

بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے بعد عوامی دباؤ اور میڈیا کی توجہ کے باعث حکومت اور متعلقہ اداروں نے صنعتی شعبے میں بہتری کے لئے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سے چند نمایاں درج ذیل ہیں:

  1. فیکٹری ایکٹ 1934 میں ترامیم:
    بلدیہ فیکٹری کے بعد، فیکٹری ایکٹ 1934 میں ترامیم کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان ترامیم کے تحت ایمرجنسی راستوں، آگ بجھانے والے آلات اور حفاظتی معیارات کی پابندی لازمی قرار دی گئی۔
    • حفاظتی معائنہ کی نگرانی میں اضافہ:
      سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے صنعتی یونٹس میں حفاظتی معائنہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ فیکٹریوں کی باقاعدہ نگرانی اور معائنہ کے لیے نئی پالیسیاں تشکیل دی گئیں تاکہ حفاظتی اصولوں پر سختی سے عملدرآمد ہو۔
      • فائر اینڈ سیفٹی ٹریننگ:
        مختلف فیکٹریوں میں مزدوروں اور انتظامیہ کے لیے فائر اینڈ سیفٹی ٹریننگ پروگرامز کا آغاز کیا گیا۔ ان تربیتی پروگرامز کا مقصد ایمرجنسی صورتحال میں مناسب ردِ عمل دینا اور انسانی جانوں کو محفوظ بنانا تھا۔
        • انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈز کا نفاذ:
          بین الاقوامی ادارے، خاص طور پر وہ جو پاکستان سے برآمدات کرتے ہیں، نے پاکستانی فیکٹریوں کو انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈز اپنانے پر زور دیا۔ کئی کمپنیوں نے اپنی فیکٹریوں میں حفاظتی نظام کو بہتر بنایا تاکہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔
        • سوشل کمپلائنس اور برآمدات پر زور:
          بین الاقوامی خریداروں نے بھی پاکستان کی صنعتوں میں حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ کئی عالمی برانڈز نے پاکستان سے درآمدات کے لیے مخصوص حفاظتی معیارات مقرر کیے، جس کی وجہ سے فیکٹری مالکان کو اپنے حفاظتی نظام کو بہتر بنانا پڑا۔

چیلنجز اور مستقبل کا لائحہ عمل

اگرچہ بلدیہ فیکٹری سانحے کے بعد پاکستان میں حفاظتی اقدامات میں بہتری آئی ہے، مگر اب بھی کئی چیلنجز باقی ہیں۔ فیکٹری مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے حفاظتی اصولوں کی مکمل پاسداری اب بھی ایک مسئلہ ہے، جبکہ حکومتی معائنہ کے نظام میں شفافیت اور فعالیت میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی اور نجی اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حقوق اور ان کی حفاظت کو اولین ترجیح بنانا ضروری ہے تاکہ بلدیہ فیکٹری جیسے سانحات دوبارہ نہ ہوں۔