یہ واقعہ ہے انیس اگست دوہزار چوبیس کی خوفناک سہ پہرکاجب ایک تباہ کن سڑک حادثے نے میگا سٹی کراچی کی بنیادوں کو ایک بار پھرہلا کر رکھ دیا۔ ایک وی ایٹ گاڑی، جسے ایک مدہوش خاتون چلا رہی تھیں، بے قابو ہو کر موٹر سائیکل پر آگے جاتے باپ اور بیٹی سے جاٹکرائی۔اور اس وحشیانہ انداز سے کہ دونوں متاثرین کچلے گئے اوراس طرح کے جان جان ِ آفریں کے سپر د کردی۔
ان کے خواب اس آہن کے ٹکڑے کی طرح بکھر گئے جو لوہار کی ناقص او رسفاک ضرب سے کرچی کرچی ہوجاتاہے اور اس کے جڑنے کا کوئی بھی امکان باقی نہیں رہتا۔معصوم باپ اپنی بیٹی کو جوکہ جامعہ کراچی میں اسٹیٹ اسٹکس ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ تھی واپس گھر لے کر آرہا تھاجب ان کی روحیں جسموں سے منقطع کردی گئیں۔
گڑیا کے ابو کی موٹرسائیکل جو جو کبھی اس کے لئے آزادی کی علامت تھی جس پر وہ اپنے بابا کے ساتھ بیٹھ کر میلوں کا سفر آزادی کے ساتھ بلا خوف وخطر طے کر لیا کرتی تھی آتش ِ نامراد کی نذر ہوگئی۔اب نہ گڑیا ہے نہ بابا اورنہ بابا کی موٹر سائیکل۔
اب خواہ وہ خاتون اپنے اعمال کے نتائج سے دوچار رہے باپ اور بیٹی کی طرف سے معافی کا کوئی اشارہ تک نہیں مل سکتاخواہ یہ بھی ثابت کردیا جائے کہ حادثہ بدنیتی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک اتفاقی حادثہ تھا۔