Light
Dark

حدود ِ وقت سے پرے…… 520 ملین سال پرانا فوسل

وقت کے پراسرارنقشہ ء ازل میں اگرمحض ایک نکتہ سمجھ میں آجائے تو ارتقاء کے اسرارگرہ در گرہ کھلتے چلے آتے ہیں۔جس طرح بیسیویں صدی میں نظریہ ء ارتقاکے بانی چارلس ڈارون نے حیرتوں بھری دنیا کوٹکر مار کر انقلابی صورتحال پیدا کی تھی اور توہمات اور واہمات کے لئے دل ودماغ میں اس وقت جگہ تنگ کردی تھی جب اس نے طویل سمندری سفر میں ہزاروں سال پرانے فوسلزکے نمونے اکٹھے کئے تھے اور زمین پر بسنے والی مخلوقات کاانتہائی عرق ریزی سے مشاہدہ کیا تھا۔

دراصل یہی وہ تاریخی لمحات تھے جب کائنات کی پراسرارگتھی سلجھنا شروع ہوئی اور زمین پر ایک نئے دور کا آغاز ہواجس نے تاریخ کا دھارابالکل بدل کر رکھ دیا۔شعور کا جوہر جب سامنے آیا توانسانی عقل دنگ ہو کر رہ گئی اورپہلی بار ابن ِ آدم نے فطرت کی نرم سرگوشیاں سنیں۔اب تلک جوزندگی قدیم جادوٹونے،ریت وروایت،رواج وسماج اور اوھام وپیغام کے شکنجوں میں قید تھی اس نے ایک نئی طاقت کے ساتھ خروج کیااور اپنی طویل ترین تاریخ میں پہلی مرتبہ بازیاب ہوکراپنے گرد لپٹے تانے بانے کی ازسرنو تشکیل کی۔

نظریہ ارتقاکے باوا آدم چارلس ڈارون نے فطرت اور ارتقاء کے مابین موافقت کے جو راز افشا کیے دراصل موجودہ سائنس انھی کے مہیا کئے ہوئے راستوں پر مزید راستے بناتی ہوئی چلتی چلی آرہی ہے۔جہاں اب کچھ لوگ یہ بھی گمان کرنے لگے ہیں کہ سائنس عمر رسیدگی کی منزل پر ہے۔مگر شاعرِ مشرق نے ہمیں ماقبل ہی خبردے دی ہے “یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید……کہ آرہی ہے دمام دم صدائے کن فیکون” ۔اور گزشتہ دنوں ہونے والی ایک اور نئی دریافت نے علامہ اقبال کی دی ہوئی اس خبر کی تصدیق بھی کردی ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک تحقیق کے دوران سائنسدانوں کو 520 ملین سال پرانالاروا ملا ہے جو مکمل دماغ اورجسم کے ساتھ ایک فوسل ہے۔یہ لاروا مخلوق آرتھروپوڈ کے نام سے پہچانے جانے والے گروہ کے ابتدائی آباؤ اجداد میں سے ایک ہے، جس میں کیڑے، کیکڑے اور لوبسٹروغیرہ شامل ہیں۔اوراب جوماضی ء قدیم کی کھڑکی سے یہ انوکھادریچہ کھلا ہے تو حیاتیاتی ماہرین کوماضی اور موجودہ دور کے آرتھروپوڈس کے درمیان ارتقائی روابط کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع مل گیا ہے۔جیسا کہ علم ہے ڈایناسورز کے فوسلز کی ہڈیاں پتھر وں میں بدل جاتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محفوظ رہتی ہیں اوراگر ہم خاص طور پر خوش قسمت ہیں، تو بڑے مجموعوں میں اس جانور کی نمائندگی کے لیے دوبارہ یکجاکیا جا سکتا ہے تاکہ تحقیق کا سفر مزیدآگے جاری رکھا جاسکے۔

خیال رہے کہ اس کی نمایاں طور پر محفوظ اندرونی ساخت ایک ایسی مخلوق کے پیچیدہ کاموں کا پتہ دیتی ہے جو زمین پر زندگی کے آغاز کے دوران رہا کرتی تھی۔اس کا دماغ، ایک چھوٹا، چمکتا ہوا مدار، قدیم مخلوق کے شعور کا جوہر رکھتا ہے۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ تمام فوسلز ایسے نہیں ہیں۔ کچھ پتھروں میں رہ جانے والی چھوٹی مخلوقات یا جانوروں کے محض نقوش ہیں، لیکن زیادہ تر میں کوئی نہ کوئی چیز مشترک ہے۔ ماحول میں پائے جانے والوں کو چھوڑ کر خاص طور پراپنے تحفظ میں مہارت ان کی فطرت کا خاصہ ہے تاہم نرم بافتیں وقت کے ساتھ ساتھ انحطاط پذیر ہوتی ہیں اور ہمارے پاس صرف پتھریلی ہڈی رہ جاتی ہے لیکن وہ بھی ہمیشہ نہیں مگرکبھی کبھی ہم خوش قسمت کہلائے جانے کا حق رکھتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا تجربے میں ہوا۔