پاکستان کے صوبہ ء پنجاب کے گاؤں میاں چنوں میں سورج افق میں ڈوب چکا ہے اور آسمان سرخ سنہری مائل رنگوں سے رنگا ہوا ہے، گاؤں کے اکثر لوگ کام کاج سے فارغ ہوکر بیٹھکوں میں بیٹھے ایک دوسرے کو دن بھر کی کارگزاری سنا رہے ہیں یا آرام کے لمحات سے لطف اندوز ہورہے ہیں،نوجوان اور کم عمر لڑکے اور لڑکیا ں موبائل فونز پر اپنے پسندیدہ پروگرامز دیکھ کر محظوظ ہورہے ہیں،کچھ بچے موبائلز پر گیمز کھیلنے میں مصروف ہیں،مائیں آواز لگاتی جارہی ہیں،کھانا کھالو،کتابیں نکالو،آج اسکول میں کچھ پڑھا بھی ہے یا بس کھیل کود کر ہی واپس آگئے ہو۔
گاؤں کے اکثر لوگ اگرچہ دولت کے لحاظ سے امیر نہیں ہیں لیکن جذبے اور عزم سے مالا مال ہیں۔انھیں دنیا کی بھی خبر ہے اور اس بات کا بھی مکمل شعور ہے کہ زندگی میں فتحیاب ہونے کے لئے انتھک محنت اور عزم بالجزم کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمت کرے انسان تو کیا ہونہیں سکتاپر ان کا یقین ِ محکم ہے۔گاؤں کے انھی باشعور اور دانشمند لوگوں میں ایک محمد اشرف اور ان کا خاندان بھی ہے جو میاں چنوں کے سربرآوردہ لوگوں میں شمار ہوتاہے۔
اگرچہ ان کی اولادوں میں ان کی تیسرے نمبر کی اولاد ارشد نے اپنے ابتدائی تعلیمی سالوں میں ہی ثابت کردیا کہ وہ ایک غیر معمولی ورسٹائل ایتھلیٹ ہے تاہم وہ ارشدپر آغاز سے خصوصی نظر رکھتے آئے ہیں۔ارشد کی ولادت 2 جنوری 1997کے جاڑوں میں ہوئی تھی۔اورارشدنے تولد ہوتے ہی والد ِ گرامی کی گود کی گرمی سے توانائی حاصل کی تھی۔زندگی کی وہ برقی توانائی جو ایک نسل اپنی آنے والی نسل کو عطا کرتی ہے۔ارشدنے اپنے اسکول میں کھیلے جانے والے تمام کھیلوں – کرکٹ، بیڈمنٹن، فٹ بال اور ایتھلیٹکس میں حصہ لیااور اس کا جنون تو کرکٹ تھا جس میں وہ خود کو منوا بھی چکا تھا،ضلعی سطح کے ٹیپ بال ٹورنامنٹس میں اس کی کارکردگی نے میاں چنوں سے باہر نکل کر شہرت کے دروازوں پر دستک دینا شروع کردی تھی۔
لیکن والد محترم کی نگاہ ِ خاص نے بھانپ لیا تھا کہ جیولین تھرو ہی ارشد ندیم کے لئے موزوں ترین کھیل ہے اور انھوں نے ارشد کواس کھیل پر خصوصی توجہ دینے کے لئے آمادہ کرلیا۔کیریئرکے آغاز میں جیولین تھرو پر اکتفا کرنے سے قبل ارشد نے شاٹ پٹ اور ڈسکس تھرو کا بھی تعاقب کیااو ر ان میں بھی کئی گولڈ میڈلزحاصل کئے۔پھر جیولین تھرو میں صوبائی سطح پر اعلٰی ترین کارکردگی نے ارشد کو قومی اسٹیج پرلاکھڑا کیااور تمام سرکردہ ڈومیسٹک ایتھلیٹکس ٹیموں بشمول آرمی، ایئر فورس اور واپڈا کی جانب سے پیشکشیں موصول ہونے لگیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ارشد ندیم کا جذبہ اور مہارت بڑھتے جاتے تھے اور یہ آتش ِ دل توا بھی جنگل کی آگ کی طرح پورے خطہ ء زمین پرپھیلنے والی تھی۔پھر یوں ہوا کہ ارشد ندیم نے 2015 میں جیولین تھرو کے عالمی مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 2016 میں انھوں نے ورلڈ ایتھلیٹکس سے اسکالرشپ حاصل کی جس کی وجہ سے وہ ماریشس میں IAAF ہائی پرفارمنس ٹریننگ سینٹر میں تربیت حاصل کرنے کے اہل قرار پائے۔ فروری 2016 میں، ارشد ندیم نے گوہاٹی، انڈیا میں ساؤتھ ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ نیزانہوں نے ایتھلیٹکس ایونٹ میں قومی ریکارڈ اور 78.33 میٹر کا اپنا ذاتی بہترین ریکارڈ قائم کیا۔چلئے اور آگے بڑھتے ہیں،2022 کے کامن ویلتھ گیمز میں،ارشد ندیم نے 90.18m کے تھرو کے ساتھ ایک نیا قومی اور کامن ویلتھ گیمز کا ریکارڈ بنایا اور 90m کے نشان کو عبور کرنے والے جنوبی ایشیا کے پہلے ایتھلیٹ بن گئے۔ 2023 میں، وہ عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی قرار پائے۔آپ کو بتاتے چلیں کہ وہ ڈومیسٹک مقابلوں میں واپڈا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 2024 کے سمر اولمپکس میں ارشد ندیم نے ملک وقوم کا حق اداکردیا،نہ صرف یہ کہ آپ نے گولڈ میڈل جیتا بلکہ ایک نیا اولمپک ریکارڈ92.97 میٹر کے تھرو کے ساتھ مردوں کے جیولن تھرو میں قائم کیا۔یعنی برسوں کی محنت وصول ہوگئی، پسینے کولہو بنانے کا نتیجہ آگیا یعنی حتمی فتح – جس نے اولمپک اسٹیڈیم کی بنیادوں کو لرزاکر رکھ دیا،ارشد ندیم کا نام تاریخ کی تاریخوں میں درج ہوچکا۔
وہ اوران کے اہل ِ خاندان اب فخر ومسرت سے مالا مال ہیں، ان کی آنکھیں خوشیوں کے اشک سے بھر بھر آئی ہیں کہ ان کے بیٹے نے دنیا کو فتح کر لیا ہے۔اور ان لوگوں کے لئے راہ ِ عمل فراہم کردی ہے جن کے سامنے نحیف سی امید کی کرن موجود ہے لیکن وہ خواب دیکھنے کی ہمت نہیں کرپاتے،ارشدندیم کی فتحیابی ایک یاد دہانی بھی ہے کہ حقیقی عظمت دولت یا حیثیت میں نہیں ہوتی بلکہ اپنے جذبوں کو آگے بڑھانے کی ہمت وجرأت میں پوشیدہ ہوا کرتی ہے……مقدر کے سنہری نیزے نے آسمانوں سے چھن کر آنے والی روشنی کوآئندہ نسلوں کے لیے اور بھی روشن اور واضح کردیا ہے۔