عظیم تر مملکت ِ پاکستان جس کی مٹی میں بہادری اور غیرت گندھی ہوئی ہے، کئی نام ایسے ہیں جنھوں نے اس کی تاریخ کو تحریر کرنے میں اپنے لہو کی سرخ سیاہی نذر کی ہے، ایک ایسی تاریخ جو ہر گوشہ ء زندگی کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔جو کہیں لہوآشام ہے اور کہیں جنگ آزما جس نے ہر نسل میں ایسے ایسے گوہر ہائے آبدار پیدا کئے ہیں جن کی شخصیت وکردار جرأت و قربانی کے جوہر سے عبارت ہے۔
طفیل محمدانگریزوں کے دورِ حکومت میں پنجاب کے ہوشیار پور میں 22 جون 1914 کو ایک گجر پنجابی گھرانے میں تولد ہوئے۔1932 میں آپ انگریزوں کی ہندوستانی فوج میں بھرتی ہوئے اور 1941 میں ڈیرادون میں ہندوستانی ملٹری اکیڈمی میں فوجی تربیت حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد ان کی رجمنٹ کو پاکستان آرمی میں منتقل کر دیا گیا اور انہوں نے 1947 اور 1958 کے درمیان پنجاب رجمنٹ میں انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ 1947 سے 1954 تک وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشیر اور ٹرینر کے طور پر کام کرتے رہے۔
ماقبل وہ 1954 میں ایسٹ پاکستان رائفلزمیں مستقل طور پر شامل کردیئے گئے۔1958 میں، میجر طفیل مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں رائفلز سے وابستہ تھے،آپ کو قریبی کوارٹرز کامبیٹ کی کوئیک رسپانس ٹیموں کے کمانڈنگ آفیسر کے طور پرانتہائی مشکل مشن سرانجام دینے کے لئے بھیجا گیاوہ مشن تھا لکشمی پور کو آزاد کرانا۔اس وقت تک میجر طفیل کا نام جرأت وبہادری کا مترادف بن چکا تھا۔بھارت جیسے دشمن کے ساتھ جنگ چھڑ گئی،لکشمی پور بھارتی قبضے میں تھا، میجر طفیل بہترین انداز سے اپنی بٹالین کی کمانڈکررہے تھے۔
آپ کے ساتھیوں نے آپ کی بہادری اور جانثاری کے ایسے نظارے دیکھے جو ہمیشہ کے لیے ان کی یادوں میں ثبت ہوکر رہ گئے – ان کا رہنما،ان کا ہر دلعزیزسپہ سالارسخت افراتفری کے عالم میں بھی سینہ تانے دشمن کی فوج سے نبرد آزما تھا۔میجر طفیل کی رائفل امید کی کرن کے ماننددشمن کے طاری کئے ہوئے اندھیرے سے برسرِ پیکار تھی۔اورپھر یوں ہوا کہ دشمن ڈگمگا گیا، گویا اس نے شیر دل جنگجو میجرطفیل کی موجودگی کو محسوس کرلیا تھااور وہ آپ کے عزم بالجزم کاسامنا کرنے کی ہمت نہیں جٹا پارہا تھا۔اور چشم ِ فلک نے دیکھا کہ مشرقی پاکستان، لکشمی پور میں ہمارے جانثار فوجیوں نے ”ستارہ و ہلال سے آراستہ سبز اور سفید پرچم” لہرایا۔
سات اگست 1958 کو، میجر طفیل نے اپنے ماتحت فوجیوں کی جان بچانے کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا تھا۔آپ کو بعد از مرگ حکومت ِ پاکستان کی جانب سے نشان حیدر دیا گیا۔میجر طفیل اگرچہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن آپ کی ناقابل تسخیر روح لمحہ لمحہ پوری پاکستانی قوم پر سایہ فگن ہے۔آپ کامبارک نام ہمیشہ تعظیم کے ساتھ لیا جاتا ہے،یہ ایک عظیم سپہ سالار اور اس کی قوم کے درمیان ہمیشہ زندہ رہ جانے والے پیمان ِ وفا کی داستان ہے۔