جب حکومتیں گرتی ہیں اور حکمران فراری ہوجاتے ہیں تو عموماً ان کی رہائش گاہیں عام لوگوں کے لیے تفریحی مقام میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔گزشتہ روز شیخ حسینہ واجدکے دورانِ احتجاج بنگلہ دیش چھوڑجانے کے بعد مظاہرین کے ہجوم نے ڈھاکہ میں سابق وزیر اعظم کی رہائش گاہ گنابھابن پرجس طرح دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی وہ سب ہجوم کی نفسیات کے عین مطابق تھا۔
اس سے قبل سری لنکا، عراق اور افغانستان میں حکومتیں گرنے پرحکمرانوں کے محلات کا محاصرہ بھی دیکھا گیااور مظاہرین کی جانب سے افراتفری اور لوٹ مارکی سرگرمیاں بھی نظر آئیں۔کئی مناظر دکھائی دیئے جن میں کچھ مظاہرین حسینہ واجد کے گھر میں داخل ہو کر بستر پربراجمان تھے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتاہے کہ ایک شخص حسینہ واجد کے گھر میں بستر پر لیٹا نظر آ رہا ہے۔اور لوگوں سے محوِ گفتگو ہے۔ وہ ببانگ ِ دہل کہہ رہا ہے، ”گنا بھابن ہمارے کنٹرول میں ہے”۔ظاہر ہے حکمرانوں کے محلوں کے دروازے جب کھلے ہوتے ہیں اور حکمران بھاگ چکے ہوتے ہیں توان کے مخالف اپنی پوری طاقت و قوت کے ساتھ محلات میں داخل ہوتے ہیں۔
ڈھاکہ میں بھی مظاہرین نے بالکل ایسا ہی کیا۔ وہ وزیر اعظم کی رہائش گاہ،گنا بھابن میں داخل ہوئے۔ملاحظہ فرمائیں جب شیخ حسینہ نے اپنا استعفیٰ پیش کیا اوراپنے گھر کو چھوڑ دیاعین اسی وقت مظاہرین کا ایک سمندر گنا بھابن کی جانب مارچ کر رہا تھا۔ بنگلہ دیش واحد ملک نہیں ہے جہاں حکومت گرتے ہی عوام نے حکمران کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیاہو۔ ایسا کئی ایک ممالک میں دیکھنے میں آیا ہے اور ظاہر ہے سب کے سب تیسری دنیا کے غریب ممالک ہی تھے جہاں سلطنتیں گریں یا گرا دی گئیں۔
ایک اور ویڈیو میں لوگ وزیر اعظم کے گھر سے ٹیلی ویژن سیٹ، کرسیاں اور میزوں کی لوٹ مار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کچن اور ریفریجریٹروں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔لوگ فرج سے نکا ل کر مچھلی اور بریانی کھاتے رہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے بہت سے کچی مچھلیاں، زندہ بکریوں اور بطخوں کو ساتھ لئے بھاگ گئے،جسے کہتے ہیں لٹ پہ گئی۔اس کا عملی رنگ صاف دیکھا جاسکتاتھا۔شیخ حسینہ کو ساڑھیوں کا شوق تھا اور ان کے پاس ساڑھیوں کا اچھا مجموعہ تھا۔کچھ لوگوں نے ساڑھیوں اور ڈائر سوٹ کیس پر حملہ کیا اور ہتھیالیا اس کے علاوہ بھی بد ترین لوٹ مار کے مناظر دیکھنے میں آئے۔
اگر تھوڑا بہ نظر ِ غائر دیکھا جائے توبحیثیت پاکستانی اس طرح کے مناظر ہمیں وطن ِ عزیز پاکستان میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان کی نوعیت یہاں مختلف ہوتی ہے لیکن واقعات کی فطرت میں یکسانیت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔سری لنکن منیجرپریانتھا کمہارا کو رگید رگید کر مارڈالنا اور پھر ہجوم کا اسے جلادینا،مشعال خان کو عاقل بالغ یونیورسٹی طلباء کا مل کر ہجوم کی شکل میں ریزہ ریزہ کرڈالنا اور اسی طرح کے کئی کیسز میں مجرموں کو ہجوم کا اپنے ہاتھوں سے سزا دینا اور بدترین انجام تک پہنچا کر بھی دم نہ لیناوطن ِ عزیز پاکستان میں آئے دن دیکھنے کو ملتا ہے۔
علم ِ نفسیات کے مطابق انسانی رویے کے دائرے میں ایک انتہائی اچھوتا موڑ اس وقت آتا ہے جب افراد تعداد میں اکھٹے ہوتے ہیں، ان کی اجتماعی توانائی ایک ایسی تبدیلی کی پیدائش کا باعث بنتی ہے جوعقل وشعور اور ہر منطق ودلیل کو مسترد کردیتی ہے۔ ہجوم کی نفسیات کا یہ دائرہ انفرادیت کی سرحدیں مٹا دیتا ہے اورپس پردہ جادوئی طاقت سے لیس انسانوں کا ریوڑ ابھرکر سامنے آتاہے۔اور جیسے جیسے ہجوم کی تعداد بڑھتی ہے ایک وحشیانہ قوت اس پر طاری ہوجاتی ہے جو نظریہ ء ارتقاکے بموجب انسان کے اندر موجود ہے۔اور پھر مشترکہ شعورکی آمیزش ایک برقی تناؤ کے ہمراہ گویا حقیقت کے تانے بانے کوتبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔
اجنبی افراد کے مابین اتحاد کا ایک غیر متزلزل تعلق جنم لیتا ہے اور یہ وہی کیفیت ہوتی ہے جیسے کوئی جنگلی قبیلہ کسی آدم زاد کو ہڑپ کرنے سے قبل مسحور کن رقص کرتے ہوئے مسرت کابے پایا ں اظہا رکررہاہو۔اسی ماحول میں، ہجوم کی مکمل نفسیات تیار ہوتی ہے جومختصر وقت کے لئے وحشیانہ زندگی کواپنانے کے لئے سر تاپا تیار ہوتی ہے۔ مزید جب ہم ہجوم کی نفسیات کے اسرار ور موز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اس دیرپااثر و رسوخ کے اصل اصول دریافت ہوتے ہیں،خاص طور پر جب ہم عوامی لیڈر زکو شعلہ بیانی کے ذریعے عوام کی توانائی کویکجا ویکجان کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ الفاظ بھرے ہوئے پستول کے مانند ہوتے ہیں اور انھیں بچوں کی طرح غیر ذمہ دارانہ انداز میں استعمال کرنے سے کوئی بھی ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچ سکتاہے۔کیونکہ الفاظوں میں چنگاری بن جانے کی وہ صلاحیت موجود ہے جودل ودماغ میں شعلے بھڑکانے میں لمحہ بھی نہیں مانگتی اور افراد کو ہجوم بنا کر مشترکہ آتش ِ تقدیر کی طرف لے جاتی ہے۔